فری فری فری۔ ایک کے ساتھ دو فری
مجھے نہیں پتا کہ مفت میں کوئی بھی سہولت دینے کا رواج کب سے اور کیسے شروع ہوا۔ لیکن مفت راشن یا رعایتی شرح پر راشن فراہم کرنے کا سلسلہ برٹش حکومت کے دوران شروع ہوا۔ اور شرعی اعتبار سے مفت حاصل کرنے کا فلسفہ قرآن مجید (سورہ التوبہ آیت ۶۰) کی وہ آیت جس میں صدقات کے مستحقین کے زمرے میں آٹھ قسم کے لوگ آتے ہیں۔ کچھ لوگوں نے زبردستی اپنے آپ کو اس میں شامل کر لیا ہے۔ اور اسی کو اب ذریعہ معاش بنا لیاہے۔
مفت کے حصول کی سوچ نے ہمیں ذہنی غلامی کا شکار بنا لیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہماراپورا کا پورا معاشرہ دوڑ میں سبقت لے جانے کی کوشش میں مصروفِ کار نظر آتا ہے۔ رعایت ایک اچھی سہولت ہے، لیکن کب تک اس سے استفادہ کرنا ہمارے لیے سودمند ثابت ہوگا، اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں رسولِ رحمتﷺ کے طریقہ اور رہنما اصول کو دیکھنا اور عمل میں لانا بھی ضروری ہے۔ جب کہ بہتر اور صحت مند زندگی کے اصول کو یکسر ٹھکرا دیا گیا ہے۔
اگر کوئی شخص صحت مند رہنا چاہتا ہے تو اسے نبی رحمت ﷺ کے رہن سہن اور کھان پان کو اپنانا چاہیے اور انہیں میں سے ایک یہ ہے کہ زیادہ تر خالی پیٹ اور بھوکا رہا جائے۔
اگر قرآنی احکام پر غور کرتے ہیں تو دو بنیادی اصول ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔
قرآن مجید کی سورہ التحریم کی آیت نمبر ۶
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ
(سورۃ التحریم ؛ آیت ۶)
اے ایمان والو! اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، اس پر سختی کرنے والے، طاقتور فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔
قرآن مجید کی سورہ آلِ عمران کی آیت نمبر۳۱
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللہُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ۔
(آل عمران آیت ۳۱)
ترجمہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! آپ لوگوں سے فرما دیجئے کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں کو درگذر فرمائے گا، وہ بڑا معاف کرنے والا اور مہربان ہے۔
آیت کا مفہوم یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جامع کمالاتِ انسانی ہیں، اور ان کی حیاتِ طیبہ پوری کائنات کے لئے ہر شعبۂ زندگی میں معیار اور نمونہ ہے۔ اب جو لوگ محبت الٰہی کے دعوے دار ہیں، ان کے دعوے کی جانچ اور پرکھ کے لئے ’’اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کو معیارقرار دیا گیا ہے، جس میں جتنی اطاعتِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ہوگی، اُسی قدر اس کی محبت الٰہی معتبر ہوگی، اور اطاعت رسول کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ کی محبت نصیب ہوگی، تمام گناہ معاف ہوجائیں گے۔
سورہ تحریم کی آیت سے ہمیں اپنے اور اپنے رشتہ داروں کو جہنم کی آگ سے بچانے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور سورہ آلِ عمران کی آیت میں اپنے آپ کو طریقہ رسولﷺ پر گامزن کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کی تفسیر توضیح آپ اکثر علماء کرام سے سنتے رہتے ہیں اور پڑھنے والے پڑھتے بھی رہتے ہیں۔ لیکن موجودہ دور میں نیکی کی رفتار کا رُخ صرف مسجد و مدرسہ کی تعمیر و ترقی، جلسے، جلوس اور عبادات تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ معاملات نہایت ہی ناکارہ ہو گئے ہیں اور معاشیات پر ہمارا کنٹرول ختم سا ہو گیا ہے۔ سوائے کباڑ کے کام کے۔ تعلیم کے نام پر ہمارے یہاں اسکول، کالجز، مدارس، یونیورسٹیز کی بھرمار ہے، لیکن علم کا اثر کسی بھی میدان میں دکھائی نہیں دیتا۔ ہر جگہ ہم نوکر بنے ہوئے ہیں۔ جو تعلیم یافتہ ہیں وہ ٹرسٹ بنا کر دولت پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں، اور جو علم والے ہیں، اُن کے یہاں اسی دولت کی حفاظت پر لگے ہوئے ہیں۔ کل ملا کر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمارے یہاں نہ معیشت ہمارے قابو میں ہے اور مالی نظام درست ہاتھوں میں ہے۔ صدقات کے مال کو تو ٹرسٹیوں نے اپنا مال بنا لیا ہے۔ دکھاوے لیے جلسے جلوس کر لیے اور چند معذوروں اور بیواوں میں ریوڑیاں بانٹ کر واہ واہی لوٹ لیتے ہیں۔ اور عمومی طور پر لوگوں کو مفت خور بنانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
جو لوگ مالی اعتبار سے خود کفیل ہیں، اُن کے یہاں دیگر معاملات میں لاپروائی ہے۔ علم کے میدان میں گرچہ ہم (انہوں) نے بہت سے کام کر لیے ہیں جیسا ہے کہ چند دانشوروں کی خوش فہمی ہے۔ لیکن صحت کے میدان میں ہم کہاں ہیں؟ کیا اُن دونوں معاملات کے بارے میں سنت نبوی کے اصول پر کاربند ہیں؟ یا اس کے ثبوت موجود نہیں ہے؟ ………
ثبوت بے شک ہیں۔
لیکن اکثر لوگ دنیا کی محبت میں پڑ کر مال سے صحت خریدنا چاہتے ہیں جوکہ نہایت ہی بے وقوفی والی سوچ ہے۔ مال بہت بڑی ضرورت ہے جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ اس کا مینجمنٹ درست نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے اکثر لوگوں کی موتیں علاج و معالجہ کے دوران ہی ہوتی ہیں۔ اگر اسپتال گئے تو عموماً ایک کے ساتھ دو فری جاتے ہیں۔ ’’ایک کے ساتھ دو فری ‘‘ سننے میں مضحکہ سا لگتا ہے، لیکن حقیقت یہی ہے۔ ایک مریض کے ساتھ دوسرا ڈاکٹر کے پیچھے پیچھے۔ ایک طرح سے بے گناہ قیدی بھی بنے ہوئے ہیں۔ آخر کب تک اپنے مال اور وقت کو برباد اور صحت سے کھلواڑ کرتے رہیں گے؟ اکثر لوگ پچاس سال کی کمائی ہوئی آمدنی عمر کے آخری پانچ برسوں میں جینے کی خواہش میں اسپتال اور دواؤں پر خرچ کر دیتے ہیں۔ جبکہ نتیجہ کوئی خاص بہتر نہیں ہوتا بلکہ اکثر تڑپتے ہوئے مرتے ہیں۔
میرا سوال یہی ہے کہ کب تک سنت کو اپنانے میں اپنی … ’’انا‘‘ کو داخل رکھیں گے؟
معاشرتی طور پر دوسری بنیادی خامی ہے وقت کا غلط استعمال۔ وقت کی بے قدری۔ اس معاملے میں سب سے زیادہ نااہل اور غیر ذمہ داری کا عمل خطباء جمعہ کا ہے۔ منبر کے برابر میں جو پیغام آویزاں رہتا ہے، اس کی کھلی خلاف ورزی کرنے والے یہی خطباء اور ائمہ ہوتے ہیں جو وقت کا خیال نہیں رکھتے۔
﴿إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا﴾
(سورۃالنساء آیت ۱۰۳)
یہ عملی زندگی کا وہ سبق ہے جسے ہمارے ائمہ کرام اپنی قابلیت تھوپنے کے چکّر میں خلاف ورزی کرتے ہیں۔ آخر وہ پانچ منٹ سے پندرہ منٹ تک اپنی قابلیت تھوپنے میں اور چندہ کرنے کے سلسلے میں تیس منٹ تک صلاۃ جمعہ کو مؤخر کرتے ہیں۔ نہ تو وہ چندہ کے اصول پر طریقۂ سنت کو اپناتے ہیں اور نہ جمعہ کی اہمیت کا انہیں خیال رہتا ہے۔ تو وہ کس بنیاد پر ایک بہتر معاشرتی زندگی کی امید میں جیتے ہیں؟ اور لوگوں کو اُلجھاتے ہیں؟ کیا پیسہ ہی سب کچھ ہے؟ دیکھیے مالداروں کی تاریخ اور سوانح؛ کس کس حالت میں لوگ جی رہے ہیں۔ کروڑوں خرچ کرکے بھی وہ خوشی نہیں خرید پائے اور نہ اپنے بچوں کو دے پائے۔ اور جو مرے ہیں، وہ کس حال میں مرے۔ یہ بھی دیکھیے۔ دیکھے وہی جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو۔
☆ ☆ ☆
محمد فیروزعالم، ری فورمسٹ، ڈائی بی ٹیز ایجوکیٹر اینڈ نائس، نوئیڈا، اترپریش، ہندوستان
9811742537