Friday, September 20, 2024

سوچئے! یہ کیا ماجرا ہے؟

 سوچئے! یہ کیا ماجرا ہے؟


’’قرآن دنیا کی آسان کتاب

جتنے بھی غیر مسلم دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں وہ قرآن پڑھ اور سمجھ کر داخل ہو رہے ہیں۔

انہوں نے ہمارے کسی مولوی صاحب کے پاس جا کر قرآن نہیں سمجھا بلکہ خود ہی سمجھاہے۔

غیر مسلموں کے سمجھنے کے لئے  قرآن آسان اور مسلم کے سمجھنے کے لئے قرآن مشکل۔

سوچئے! یہ کیا ماجرا ہے؟‘‘


واوین یا انورٹیڈ قوماز کے اندر لکھا یہ پیغام واٹس ایپ پر تیر رہا ہے، گھوم رہا ہے۔ عام فہم زبان میں یہ بات سبھی کو سمجھ میں آ رہی ہے۔ ’’لیکن نہیں سمجھ آیا تو ابھی تک قرآن کا پیغام!‘‘


جس نے بھی یہ پیغام دیا ہے وہ یہ بتانا چاہتا ہے مسلم قوم قرآن کے پیغام کو نہیں سمجھتے۔ یا اُن کے لئے سمجھنا مشکل ہے۔

پہلی سطر’’قرآن دنیا کی آسان کتاب‘‘ اس میں شاید ہی کسی کو شک ہو۔

دوسری سطر ’’جتنے بھی غیر مسلم دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں وہ قرآن پڑھ اور سمجھ کر داخل ہو رہے ہیں‘‘

ظاہر ہے کہ اِس بات کا انہوں نے اقرار کیا ہے کہ دوسرے لوگ یا غیر مسلم قرآن پڑھ اور سمجھ کر داخل ہو رہے ہیں۔

ہمارے لوگوں کی سمجھ کہاں کھپ گئی؟؟؟

کیا ہم قرآن کے پیغام کو سمجھنے کے قابل نہیں ہو سکے یا نہیں ہیں؟

ہمارے لوگ کسی مولوی صاحب کے پاس جاکر قرآن سمجھنے کی کوشش کیوں کرتے ہیں؟

کیا ہمارے کسی مولوی صاحب نے اب تک قرآن سمجھایا ہے؟

کیا ہمارے مولوی صاحب اور جنہوں نے قرآن سمجھا ➖ یا ➖  سمجھایا ہے، وہ قرآن کے احکام پر پابند ہیں؟ 

اگر ہیں تو کس حد تک ؟

آج ہمارے پاس یہ فہرست تو موجود ہے کہ کس عالم یا دانشور نے کتنی کتابیں، تفسیریں، وغیرہ لکھی ہیں؟

کتنے مدرسے یا کتب خانے قائم کئے؟

سماج کا کون سا ایسا باب یا پہلو ہے جس پر ہمارے علماء کرام نے کتابیں نہیں لکھیں یا تقریریں نہیں کیں؟

ایک ہی موضوع پر درجنوں عالموں کی درجنوں کتابیں موجود ہیں۔ 

نماز کی کتاب کی مثال لے لیجیے۔ کسی بھی شہر کے کتب خانہ بازار میں جائیے، دسیوں کتابیں مل جائیں گی۔ بلکہ دہلی، ممبئی، حیدرآباد، لکھنؤ جیسے شہروں میں سو کے قریب مختلف نسخے نماز کے موضوع پر مل جائیں گے۔

یہاں تک کہ اب ’’انجمن حمایت اسلام لاہور‘‘ کے ذریعہ تیار کردہ ’’اردو کا قاعدہ‘‘ پر سیندھ مارنے کی کوشش کی گئی ہیں۔ کلکتہ اور بہارشریف کے دو کتب خانوں کو میں رابطہ کیا تو اُن کے پاس جواب ٹالنے والا تھا، ’’ابو نے کرایا ہے، علماء کرام ہی بتا سکتے ہیں‘‘ وغیرہ۔ آخر یہ لوگ قوم کو دینا کیا چاہتے ہیں؟

یہ ایسا دعویٰ بھی نہیں ہے کہ جس کی دلیل آپ مجھ طلب کریں۔ آپ کی آنکھوں کے سامنے دلائل کی بھرمار ہیں۔ 

علماء کرام بنٹے ہوئے ہیں۔ کتب خانے بنٹے ہوئے ہیں۔ مدرسے بنٹے ہوئے ہیں۔ مسجدیں بنٹی ہوئی ہیں۔ 

ہر مسلک و مشرب کی جانب سے درجنوں علماء کرام کتابوں اور تقریروں کی بھرمار کئے ہوئے ہیں۔ 

پھر بھی ہمارے لوگ قرآن کو سمجھ نہیں پاتے ہیں۔ کیوں؟  اصل  پہلو پر بھی آپ غور کریں۔

اصل بات یہ ہے کہ ’’کیوں‘‘ کے پہلو پر ہمیں غور کرنے کی صلاحیت مفقود ہو چکی ہے۔

آپ اگر دیکھنا چاہتے ہیں تو دیکھیے گا کہ اکثر وہ لوگ جنہوں نے دینِ اسلام قبول کیا ہے، وہ کسی مولوی کی رہنمائی میں تو برائے نام ہیں۔ لیکن کسی غیر مولوی اسکالرز کے ذریعہ عام طور پر بھری مجلس میں اسلام قبول کر رہے ہیں۔ کیوں کہ اُن کے ذریعہ کئے گئے سوالات کے جوابات دیے گئے اور دیے جا رہے ہیں۔ اُن کا اطمینانِ قلب ہی، انہیں اسلام کی سچائی کو قبول کرنے پر مائل کر رہا ہے۔ نہ کہ مجبور کر رہا ہے۔ 

لیکن یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کہ جہاں بھی مجبور کرنے کی صورت پیدا ہوئی ہے، وہ لوگ بظاہر اسلام قبول کر چکے ہیں لیکن عملی طورپر اسلام کے اصولوں پر کاربند نہیں ہیں۔ نہ ہی وہ اصول کو سمجھ پائے اور نہ ہی انہوں نے سمجھنے کی کوشش کی۔

آپ خود دیکھ رہے ہوں گے کہ ہمارا سماجی طور طریقہ کس حد تک غیروں کے مماثل ہیں۔ ہم لوگ اصول کو اپنی خواہش کے مطابق عمل میں لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب کہ حدیث کے مطابق اسلام کا اصول ہے کہ 

لا يُؤمنُ أحدُكُم حتى يكونَ هَوَاهُ تبعًا لما جِئتُ بِهِ

کوئی شخص اُس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اُس کی طبیعت میرے ذریعہ لائے ہوئے پیغام کے تابع نہ ہو جائے۔

لا يُؤْمِنُ أحدُكم حتى أَكُونَ أَحَبَّ إليه مِن وَلَدِه، ووالِدِه، والناس أجمعين

کوئی شخص اُس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں (محمد ﷺ) اُن کی اولاد، اُن کے والدین اور دیگر تمام لوگوں کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔

محبت، حبیب، اور محبوب کی تفصیل جاننے کے لئے اس آیت کے مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔

قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ

(سورہ آلِ عمران آیت ۳۱)

اے نبی (محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم) کہہ دیجیے کہ اگر تم اللّٰہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللّٰہ تعالیٰ تمہیں محبوب رکھے گا، اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا۔ بے شک اللّٰہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

محبت کے اِس جامع حکم اور اصول کو ہم نے یا تو سمجھا نہیں، یا پھر عمل میں نہیں لایا، یا پھر ہم اپنی طبیعت کے مطابق زندگی جینا چاہتے ہیں، جیسا کہ عمومی طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

کوئی تو وجہ ہے کہ غیروں کے سامنے ہماری عزت نیلام ہو رہی ہے۔ ہمیں ذلیل و رسوا کیا جا رہا ہے۔ ہماری عبادت گاہیں مسمار کی جا رہی ہیں۔ ہمارےتعلیمی ادارے برباد کیے جا رہے ہیں۔ یہاں تک اب ہمارے گھر بھی ہمارے سامنے بلڈوز کئے جا رہے ہیں۔ کیوں؟؟؟

ہم نے بھی دیکھا اور عمومی طور دیکھا اور سنا جا رہا ہے کہ ہمارے لوگ اب اپنی عبادت، ریاضت، معاملات، اور سماجی پہلو کو احکامِ الٰہی اور طریقۂ نبی کو چھوڑ کر اُن سے موازنہ کرکے عمل میں لاتے ہیں۔


’’وہ پندرہ دنوں سے کانوڑ لے کر چلتے ہیں تو راستہ جام نہیں ہوتا؟‘‘

یا اِسی طرح کے دیگر اسباب بیان کرتے ہیں۔

اُن کے اصول وہ جانیں، بلکہ وہی زیادہ جانتے ہیں۔ ہم انہیں اصول سکھانے والے کون ہوتے ہیں؟


بہت کم ایسے لوگ ہوں گے جو اس طرح سے سڑک جام کرنے کو صحیح تسلیم کرتے ہیں۔ جب کہ اکثریتی طبقہ بھی ایسی حرکتوں کو ناپسند اور خلاف اصول سمجھتے ہیں، اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس طرح سڑک جام کرنا یا ایک طرفہ سڑک جام کرنا اور وہ بھی کئی کئی ہفتوں تک۔ غیر مناسب ہے۔ 

ٹریفک جام ہونے کی وجہ سے کروڑوں لوگوں کو تین گنا کرایہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ 

ٹرانسپورٹیشن میں دقتوں کا سامناکرنا پڑتا ہے۔ 

بہت سارے ضروری کام ٹالنے پڑتے ہیں۔ 

لیکن مریض کا علاج کرانا تو ضروری ہوتا ہے۔ 

انہیں اور بھی زیادہ دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 

ٹریفک کی دقتوں کی وجہ سے ضروریاتِ زندگی کی پہنچ میں دشواری ہوتی ہے۔ 

مریض جان گنواتے ہیں یا اپاہج ہو جاتے ہیں۔


وہ راستہ جس پر لوگ چلتے ہیں اور اسے اپنے پاؤں سے پامال کرتے ہیں وہ بھی ان سات مقامات میں داخل ہے جن میں نماز پڑھنے سے نبی کریم ﷺ نے منع فرمایا ہے، چنانچہ ابن ماجہ نے ’’سنن‘‘ میں حضرت ابن عمرؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا

سَبْعُ مَوَاطِنَ لَا تَجُوزُ فِيهَا الصَّلَاةُ ظَاهِرُ بَيْتِ اللَّهِ وَالْمَقْبَرَةُ وَالْمَزْبَلَةُ وَالْمَجْزَرَةُ وَالْحَمَّامُ وَعَطَنُ الْإِبِلِ وَمَحَجَّةُ الطَّرِيقِ

(سنن ابن ماجہ۷۴۷)

’’سات مقامات ایسے ہیں جن میں نماز جائز نہیں ۔

(۱) بیت اللہ شریف کی چھت (۲)قبرستان (۳)کوڑے کرکٹ کا ڈھیر (۴)ذبح خانہ (۵)حمام (۶) اونٹوں کا باڑہ (۷) راستہ۔‘‘

مذکورہ حدیث کس زمانے میں قابلِ عمل ہوگی؟

کیا اِس میں راستہ پر نماز پڑھنے سے منع نہیں کیا گیا؟

کئی مقامات پر ٹریفک میں دشواری ہوتی ہے لیکن مسجد کمیٹیوں نے انتظامیہ سے متعینہ وقت کے لئے درخواست دی ہوئی ہے۔ مسجد کے امام و مقتدی وقت کا پورا پورا خیال رکھتے ہیں۔ کوئی دشواری پیش نہیں آتی۔

لیکن چند دو ٹکے کے امام جو اپنے بیانات کو طول دیتے ہیں اور جواز افادیت کا فراہم کرتے ہیں، سب سے بڑے فتنہ کے جنم دینے والے ایسے ہی امام اور کمیٹی والے ہیں۔ جس مسجد میں جمعہ کی نماز یا دیگر نماز کا وقت متعین ہوں اور اسے نئی افادیت یا کوئی اور بہانا بنا کر نیا فتنہ پیدا کرنا کسی بھی طرح سے مناسب نہیں کہا جا سکتا۔

دو ٹکے کے امام اور کمیٹی والوں نے گاؤں تک میں فتنہ پیدا کر رکھا ہے۔ خاص طور سے ان علاقوں میں جہاں فیکٹری اور دفاتر ہیں۔ کیوں ایک ہی وقت میں جمعہ پڑھی جاتی ہے۔؟ جب کہ ہمارے پاس کئی جماعتیں کرنے کی گنجائش ہیں۔ اسی لئے تو کہ کسی کا جمعہ بھی نہ چھوٹے اور انسانیت کو تکلیف بھی نہ ہو۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ آج جمعہ کا دن اور وقت ہے، خود احتیاط کرتے ہیں۔ لوگ احتیاط کرتے ہیں۔ دوسرے لوگوں کو بھی ہماری ضرورتوں کا خیال رہتا ہے۔ لیکن ہم کس بنیاد پر خطبہ کو طول دے کر نماز کو پانچ سے دس منٹ تک مؤخر کرتے ہیں؟ اور کیوں؟ لاکھوں کی تعداد میں علماء مولوی اور مولوی نما لوگ مدارس اور مساجد کے وقت اور طور طریقے کو کیوں نہیں سنبھال پاتے ہیں؟ مسجدکی صفائی ستھرائی اور امام کی غیرحاضری پر سب سے سب جج یا متولی بن جاتے ہیں۔ لیکن ذمہ داری نبھانے کے نام پر ؟؟ ’’یہ تو فلاں کا کام ہے‘‘

جن قوموں نے وقت کا خیال نہیں رکھا، وہ قومیں تباہ ہوئی ہیں۔ دنیا کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے۔

آج بھی وہیں قومیں کامیاب و کامران ہیں، جن کا وقت، مال اور صحت کا تنظیمی ڈھانچہ اصول کے مطابق ہے۔

کیا مسلم قوم نے زکوٰۃ جیسے اہم رکن کو مالیاتی تنظیم کا ذریعہ بنایا؟

کیا مسلم قوم نے صوم جیسے اہم رکن کو جسمانی تنظیم کا ذریعہ بنایا؟

کیا مسلم قوم نے وقت جیسے اہم معاشرتی حکم کو منظم کیا؟

اگر نہیں تو نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ 

کتنے فیصد ڈاکٹرس، انجینئرز، وکلاء، صنعت کار آپ نے پیدا کئے؟

شاید یہ اللّٰہ کی جانب سے قلعی کا دور چل رہا ہے۔ یعنی ریفرش منٹ کا زمانہ۔ اس دور میں وہی عزت سے رہیں گے، جنہوں نے احکامِ خداوندی اور طریقہ رسول کی پاسداری کی اور جنہوں نے اپنی مرضی سے جینے کا طے کیا ہوا ہے۔ وہ خس و خاشاک کی طرح دنیا سے ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔

اللّٰہ ہم سب کی حفاظت فرماے۔ صحیح سوچ اور غور فکر کی صلاحیت عطا فرماے۔ آمین

فیروزہاشمی

24th March 2024


No comments:

Post a Comment

آپ ہی سر بلند رہیں گے اگر

سوشل میڈیا کے رواج پانے کے بعد کسی بھی موضوع پر بحث و مباحثہ کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ پہلے یہ سب نہیں ہوتا تھا۔ پہلے بھ...