Friday, June 9, 2023

🌸🌸’’ہم جوڑنا چاہتے ہیں، جُڑنا نہیں چاہتے‘‘🌸🌸


ایک طرح سے آج ہم سوشل میڈیا کے دور میں جی رہے ہیں۔ یعنی ہماری طرزِ زندگی میں سوشل میڈیا ایک اہم کردار نبھا رہا ہے۔ اب چاہے تعلیم و تعلّم کا سلسلہ ہو، ارسال و ترسیل کا سلسلہ ہو، مصدقہ یا غیر مصدقہ خبروں کا سلسلہ ہو، اُلٹے پلٹے لطیفوں کا سلسلہ ہو، بحرے بے بحرے شعر و شاعری کا سلسلہ ہو، ادب و بے ادبی کا سلسلہ ہو، نئے نئے سوشل ایکٹویسٹ نوجوانوں کا سلسلہ ہو یا ریٹائرڈ بزرگ و بزرگہ کے مشورے اور رہنمائی کا سلسلہ ہو۔ یہ سب کے سب مل کر زندگی کو اتنی اُلجھن میں ڈالے ہوئے ہیں کہ پتا ہی نہیں چلتا کہ اب تک کیا کرتے رہے ہیں، اور اب کرنا کیا ہے؟ 

ہر ادارے کا ایک سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہے خواہ وہ کسی میدان میں سرگرمِ عمل ہیں۔ اور کسی فارغ کو کوئی کام نہیں آتا تو اُسے سوشل میڈیا ایکٹویسٹ بنا دیا جا تا ہے۔ وہ بیٹھے بیٹھائے پریس ریلیز گھڑتا ہے اور اخباروں کو بھیج دیتا ہے، دوسری صبح شائع ہونے پر اُسے بے انتہا خوشی ہوتی ہے، اتنی جیسے کہ اُس نے محلّہ فتح کر لیا ہو، اب محلے والے سب اُس کے پیروکار بن جائیں گے۔ پھر اُس شائع شدہ پریس ریلیز یا خبر کو اخبار سے کاٹ کر واٹس ایپ کے ذریعہ مزید لوگوں کو بھیجتا ہے۔ ان سب مختلف میدانوں میں سرگرم لوگوں میں عمومی طور پر تین قسم افراد پائے جاتے ہیں۔

۱۔ نوجوانی میں رنگ بازیاں

۲۔ جوانی میں جگاڑبازیاں

۳۔ بڑھاپے میں رنگ سازیاں

قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ ٱللَّهَ فَٱتَّبِعُونِى يُحْبِبْكُمُ ٱللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَٱللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

(آل عمران - 31)

اے حبیب! فرما دو کہ اے لوگو! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ اللہ تم سے محبت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کا دعویٰ جب ہی سچا ہوسکتا ہے جب آدمی سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی اتباع کرنے والاہو اور حضورِاقدس صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی اطاعت اختیار کرے۔ 

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ سرکارِ مدینہ  صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم قریش کے پاس تشریف لائے جنہوں نے خانۂ کعبہ میں بت نصب کئے تھے اور انہیں سجا سجا کر ان کو سجدہ کررہے تھے۔ تاجدارِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا، اے گروہِ قریش !خدا  عَزَّوَجَلَّ کی قسم ،تم اپنے آباء و اجداد حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دین سے ہٹ گئے ہو۔ قریش نے کہا ہم اُن بتوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی محبت میں پوجتے ہیں تاکہ یہ ہمیں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے قریب کریں۔

اس پر یہ آیت ِ کریمہ نازل ہوئی۔

اب آپ ذرا غور فرمائیں؛ 

کیا ہمارے سماج میں ایسی جماعت نہیں ہے ؟ 

جس کا کہنا ہے ہم اُن بزرگوں کے ساتھ یہ رویّہ اِس لئے رکھتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے قریب کریں۔؟

کیا ہمارے سماج میں ایسی جماعت نہیں ہے جس کا کام ہی فتویٰ جاری کرنا ہے۔؟ اُن کے اداروں اور ویب سائٹوں پر فتاویٰ کی بھرمار ہے۔ جب کہ اُسی جماعت کی پیروی کرنے والے کا عمل بیشتر فتویٰ کے خلاف ہے۔

کیا ہمارے سماج میں ایسی جماعت نہیں ہے جس کا کام ہی اپنے بزرگوں کے خیالات اور کارکردگی کو فروغ دینا ہے۔؟ اور اسی قسم کی سطحی بنیادوں پر کئی شکم پروری کی مسلکیں اور جماعتیں بنی ہوئی ہیں۔ یہاں تک کہ سوشل میڈیا پر بھی گروپ بنے ہوئے ہیں۔ ذرا سی باتیں اپنے مزاج کے خلاف محسوس ہوا کہ لن ترانیاں شروع ہو گئیں اور علمی باڑھ آگیا۔ اور اگر کسی نے مسئلے کا مدلل حل بتایا تو جس جماعت یا مسلک کے بزرگوں کے خیالات کے خلاف محسوس ہوا تو بزرگوں کے اقوال کی باڑھ لگا دی گئی۔ جب کہ اُس کا تعلق نہ سنت نبوی سے ہے اور نہ ہی احکامِ خداوندی سے۔

مالیات کا شعبہ اور صحت کا شعبہ پر کئی صدی پہلے ہی دوسری قوموں کا قبضہ ہو چکا اور ہمارے علماء کرام فتاویٰ لکھتے رہے۔ اب خوراک کا شعبہ بھی دوسری قوم کے ہاتھ میں جا چکا ہے۔ اور ہمارے پاس بچا ہے تو صرف مدارس، تعلیمی ادارے وہ بھی مسلکی بنیادوں پر۔ احکامِ خداوندی اور سنت رسول کا پتا ہی نہیں چلتا کہ وہ کہاں ہے؟ تعلیم اور عقیدے کی روح نکل چکی ہے۔ صرف عمارتیں، لائبریریاں اور روایتی سہولتیں رہ گئی ہیں۔

ہمارے معاشرے میں عبادات غالب ہے اور اخلاق مغلوب ہے۔

ہماری قوم تعلیمی اعتبار سے مینجمنٹ اور ایڈمنسٹریشن تک نہیں پہنچ پاتی اور محکمہ میں کام کے لئے جانا ہوتا ہے اور کچھ وقت درکار ہوتا ہے، یا بعض دفعہ سرکاری عملہ ٹال مٹول کرتا ہے تو ہماری رائے بنتی ہے کہ  ’’ہر محکمہ میں سنگھی گھسے ہوئے ہیں، اس لئے ہمارے کام میں رکاوٹ پیدا کر رہے ہیں‘‘۔

لیکن جب ہمارے رفاہی ادارے اور دینی ادارے کے ایڈمن یا ذمہ دار سند، مارک شیٹ وغیرہ جیسے کاموں کی درخواست کے لئے جائے تو کہاجاتا ہے ’’ہاں یہی کام رہ گیا ہے میرا‘‘ یہ جواب کس قدر مناسب ہوگا؟ آپ بتائیں۔

معقول معاوضہ نہ دینے اور مجبوری کا فائدہ اٹھانے کے لئے ہمارے ہی اداروں کے ذمہ داران کا یہ جواب کہ ’’ادارہ آپ کا اتنا دے سکتا ہے، آپ چاہیں تو کر لیں‘‘، یا ’’آپ کی طرح بہتیرے مارے پھر رہے ہیں، میں تو رحم کھا کر آپ کو ملازمت دے رہا ہوں‘‘ ایسی قوم کے قابل افراد دوسرے لوگوں کے یہاں کام نہ کریں تو کیا کریں۔؟ چوری، بے ایمانی آتی نہیں کہ شکم پروری کے ادارے میں شامل ہو جائیں۔ اب وہ بے چارے بن جاتے ہیں۔ اپنے ایمان کو بچاتے ہوئے، مٹی، پتھر ڈھونے پر مجبور ہوتے ہیں۔ سبزی یا دیگر خورنی اشیاء کا ٹھیلہ لگا کر روزی روٹی کا بندوبست کرتے ہیں۔ تب بھی انہیں طعنہ مارا جاتا ہے۔ ’’پڑھیں فارسی، بیچیں تیل‘‘ تو بھائی آپ بتائیں کہ کیا کریں؟

اعلیٰ درجے کا مسلمان کون ہے؟

المسلم من سلم المسلمون من لسانیہ و یدہ

جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔

خیر الناس من ینفع الانسان

اچھا انسان وہ ہے جس سے انسان کو فائدے پہنچے۔

اب آپ خود اِن دو بنیادی اصولوں پر قائم کتنے فیصد مسلمان بطورِ نمونہ پیش کریں گے؟

جو قوم مسجد بنا کر خوش ہو جاتی ہے، وہ ادارے قائم کر لیں گے؟ 

مسجد بنانے سے پہلے امام رکھ لیا جاتا اور اس کی تنخواہ کے لئے چندہ کیا جاتا ہے۔ یہ ویسے ہی کہ ڈرائیور پہلے رکھ لیا اور گاڑی خریدنی ابھی باقی ہے۔ ہمارے دینی اور ملی اداروں کا حال یہ ہے کہ یہ دس نکمّے اور باتونی اور چاپلوس کو رکھیں گے، لیکن دو کام کے آدمی نہیں رکھیں گے۔ کیوں کہ انہیں صدقہ زکوٰۃ کا بندر بانٹ کرنا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ صدقہ کے حقدار صرف رفاہی ادارے یا مدارس ہی ہیں۔ اگر کسی کو دسویں بارویں درجات کرنے کے لئے پیسے کم پڑیں تو اسے نہ دیا جائے۔ جب ترتیب ہی درست نہیں ہو سکی ابھی تک تو نتیجہ مثبت کیسے آئے گا؟

ابھی گزشتہ رمضان میں ہی (چند فیکٹری یا کسی کے احاطہ میں) اُن مقامات پر نمازِ تراویح پڑھنے سے روکا گیا۔ اور اڑچنیں کی گئی جس کے ہماری حمیت جاگی لیکن اصول پھر یاد نہیں آیا اور نہ دلایا گیا۔ اگر کسی نے یاد بھی دلایا تو اسے بزدل اور کمزور ثابت کرنے میں اپنی صلاحیتیں کھپائی گئیں۔

ان کے بیان سے یقیناً ہمارے اکثر بھائیوں کو دکھ ہوا ہوگا۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’’ہم نئی پرمپرا چلنے نہیں دیں گے۔‘‘ میرا سوال اپنے بھائیوں سے ہے کہ کیا تراویح پڑھنا اتنا ضروری ہے؟ وہ بھی کہیں بھی اکٹھے ہوکر؟ آپ اپنی مساجد میں تراویح پڑھیے۔ وہاں کوئی روکتا ہے تو آپ کو حق بنتا ہے کہ آپ اپنے حقوق کا استعمال کریں۔ 

ابھی حال ہی میں حج پر جانے والے مسافروں کی بس کو شرارت پسندوں نے روک کر تکلیف پہنچائی، جس کے تعلق سے سوشل میڈیا پر کچھ خبریں بھی آئیں۔ پھر خاموش۔ کیوں کہ ہمیں حج پر جانا ضروری ہے۔ دولت کی نمائش کیسے ہوگی؟ ایک طرف تو ہماری قوم اپنے آپ کو غریب، محتاج، لاچار اور پسماندہ ظاہر کرتی ہے۔ دوسری طرف یہ دولت کی نمائش کیوں؟ کیا حج اور عمرہ پر جانے والے اشخاص یہاں کے فرائض ادا کر چکے ہیں؟ 

ہم ایسے پچاسوں ادارے اور سیکڑوں افراد کو جانتے جو اپنے ورکروں کو وقت پر ماہانہ اجرت ادا کرنے کے لئے کئی قسم کے بہانے بناتے ہیں اور جب کہ ہر سال ایک یا دو بار عمرہ پر جانے کے لئے اُن کے پاس مال ہوتا ہے۔ یہ ڈبل اسٹینڈرڈ کیوں؟ ہمارے سماج کے ایسے دو سطحی سوچ رکھنے والے اور عمل کرنے والے افراد ہی معاشرے کے ناسور ہیں۔ جب میں نے اس مضمون رکھا ہے ’’ہم جوڑنا تو چاہتے ہیں، جُڑنا نہیں چاہتے‘‘

۔۔۔۔۔۔

فیروزہاشمی، نوئیڈا، اترپردیش

ری فورمسٹ، ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن کنسلٹنٹ


عید یومِ محاسبہ و معاہدہ

 ⬅️’’عید‘‘  یومِ محاسبہ و معاہدہ ➡️ عمومی طور پر دنیا میں مسلمانوں کے تین تہوار منائے جاتے ہیں، جو کہ خوشی، معاہدہ، محاسبہ، ایثار وغیرہ کا پ...