Saturday, October 14, 2023

🌼🌼مسلم قوم، ذہنی پسماندگی کا شکار🌼🌼


اِس جملہ میں کتنی سچائی ہے، اِس کو جاننے اور سمجھنے کے لئے معاشرہ پر بغور نظر ڈالنا ہوگا۔ اخبارات و دیگر وسائل خبر اور معلومات پر بھروسہ کرنا بھی پڑے گا۔ ساری خبریں سوشل میڈیا پر غلط نہیں ہوتیں۔ یہ الگ بات ہے کہ لوگوں نے خبروں کی بھرمار کر دی ہے۔ اکثر خبرکو جو بمشکل تِل کے برابر ہوتا ہے اُسے تاڑ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ خبروں کا تجزیہ کرنا بھی اتنا آسان نہیں ہوتا جیسا کہ عمومی طور پر سمجھا جاتا ہے۔ خبروں کی چھنٹائی کرنا بھی ایک کام ہے۔ پھر بھی اس سے جو نتیجہ سامنے آنے والا ہے، وہ سب کو چونکا جائے گا۔ لیکن اکثر لوگ اِس نتیجہ کو بالکل لاپروائی سے جھٹک دیتے ہیں۔ حالاں کہ ساری باتیں ، خبریں اور حالات جھوٹے نہیں ہوتے۔ بیٹھے بٹھائے قصہ گڑھنے والوں کی بھرمار ہے، لیکن اگر حقیقت سامنے آ جائے حالات و واقعات مدلل ہوں، روز روشن کی طرح عیاں ہو، تو پھر حقیقت سے روگردانی اپنی عقل پر بھروسہ نہ کرنے کے مترادف ہوگا۔

اکثر فیس بک پر اور واٹس ایپ گروپ میں وہ لوگ ہی زیادہ سر گرم معلوم پڑتے ہیں جوصرف وقت گزاری کرتے ہیں۔ دقّت وہاں آتی ہے، جہاں ساٹھ برس سے زائدہ عمر کے لوگ جو یا تو بزنس مین ہیں، یا پنشن پر جی رہے ہیں، یا بال بچوں سے بے فکر ہیں۔ یا اُن کی آمدنی سے گزارا ہو رہا ہو اور سب کچھ ٹھیک ہے۔ تو ایسے لوگ دنیا کے لوگوں کو مشورے دیتے رہتے ہیں، اُن کا وقت گزر جاتا ہے۔ یہ وہ سکسٹی پلس لوگ ہیں جواپنا قیمتی وقت دوسروں کو فائدہ پہنچانے میں استعمال کرنے کے بجائے، اُلجھن میں ڈالنے کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ خودبھی اُلجھن میں ہیں اور دوسروں کو بھی اُلجھن میں ڈالتے ہیں۔ کیوں کہ اکثر لوگ اُن کی بزرگی کا خیال کرتے ہوئے اُن کے مشورے پر عمل کرتے ہیں۔ حالاں کہ اُن کو اپنے میدان کے علاوہ کسی دیگر میدان کا علم اور تجربہ نہیں ہوتا۔

ساٹھ کی عمر کو پہنچنے والے یا ہو چکے لوگ عموماً اُن علاقوں کو پسند کرتے ہیں، جہاں قریب میں مسجد ہو، کیوں کہ وقت گزاری کہاں کریں گے۔ چالیس پلس جن کا روزگار درست ہے اُن کے اندر اب نیا شوق چڑھا ہوا ہوتا ہے۔ وہ کسی بھی نئے علاقے میں جا کر بستے ہیں اور اُس جگہ کو تلاش کرتے ہیں جہاں مسجد قریب ہو۔ یا اُس نئے علاقے کو تلاش کیاجاتا ہے جہاں مسجد اور مدرسہ بنانا آسان ہو کیوں کہ اِس کے نام پر چندہ بڑی آسانی مل جاتا ہے۔  یا اُس جگہ کو ڈھونڈا جاتا ہے جہاں پرانا قبرستان ہو، اُس کے نام پر بھی چندہ کرنا آسان ہوتا ہے۔ حالاں کہ یہ سب بھی نیکی کا ہی ایک حصہ ہے۔ ایسے لوگوں کی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا، لیکن تجربہ کچھ اور ہی بتاتا ہے۔ ہمارے یہاں عموماً روایت چلی آ رہی ہے کہ معاملات کی خرابی کو عبادات سے ڈھکنے یا بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جب کہ یومِ حساب کے پرچہ میں کوئی ایسا سوال یا جواب نہیں ہے کہ اگر کسی نے دنیا میں لوگوں کے ساتھ معاملات کو بہتر نہیں رکھا اورآخری عمر میں عبادات پر توجہ دے کر اِس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی ➖تو روزِ قیامت ایسا معاملہ غیر درست ہوگا۔ ➖یہ بہت غلط سوچ ہے۔ ➖ملازمین و مزدور کے حقوق تلف کر کے، رشتہ داروں کے حق مار کے عمرہ اور حج ادا کرنا کیا معنی رکھتا ➖؟  زبردستی لوگوں سے مسجد اور مدرسہ کے نام پر چندہ وصول کرنا اور محلہ میں ہیکڑی دکھانا ➖کون سی عبادت کا حصہ ہے ➖؟ مسجد اور مدرسہ کے نام پر کئے گئے چندہ کی رقم سے اپنی پروپرٹی بنانا یہ کون سی عبادت کا حصہ ہے ➖؟  

اِس وقت سوشل میڈیا پر جینوسائڈ کی خبریں خوب وائرل ہو رہی ہیں۔ حالاں کہ صدیوں پہلے ہمارا ذہنی جینو سائڈ کیا جا چکا ہے ➖اور اب جسمانی جینوسائڈ ہو رہا ہے۔ ➖کیوں کہ ذہنی جینوسائڈ کے نتیجہ میں ہی ہمارے اندر یہ تبدیلی آئی ہے کہ معاملات کی خرابی کو عبادات سے بدلنے کا طریقہ بتا دیا گیا ہے۔ اور فرائض و واجبات اور معاملات کو درست طریقے سے نہیں سمجھایا گیا۔ اب جسمانی جینوسائڈ کی کئی مثالیں سامنے آ چکی ہیں۔ برسوں سے ہم سنتے آ رہے ہیں کہ اپنے لوگوں کے ساتھ رہو، اپنے علاقے میں رہو۔ بہت کم لوگ ایسے ملے جنہوں نے یہ کہا ہو کہ اپنے سطح کے لوگوں کے ساتھ رہو یا انسانوں کے ساتھ رہنا سیکھو چاہے وہ مذہب کے اعتبار سے خواہ کوئی ہو۔ جہاں انسانیت کا خیال رکھا جاتا ہو، جہاں انسانیت کے طور طریقے کو برتا جاتا ہو، وہاں ترقی ہوگی۔ ➖لیکن دیکھا یہ جا رہا ہے کہ زیادہ تر لوگوں نے ’’انسانیت‘‘ میں سے  سین ہٹا کر کے ’’انانیت‘‘ کا درس دیا۔ نتیجہ کئی جگہوں اور علاقوں میں سامنے آ چکا ہے۔

ساٹھ برس سے کم عمر کے پڑھے لکھے بیشتر لوگ بھی اکثر موضوعات کے تحت سنجیدہ قطعی نہیں ہیں۔ وہ کسی نہ کسی طریقے سے اپنی بات پر بضد رہتے ہیں۔ ➖ اگر ابھی اُن سے سماجی معاملات کے بارے میں گفتگو کی جائے تو آمنے سامنے جوتم پیزار کی نوبت آ جائے ، لیکن گروپ میں دشنام طرازی تو ہو ہی سکتی ہے۔ 

میں نے کئی بار سوال کیا کہ ’’مسلم قوم کی سب سے بڑی دقت کیا ہے‘‘ کوئی معقول جواب اب تک نہیں مل سکا۔

جب کہ گروپ کی سرگرمیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ’’مسلم قوم ذہنی پسماندگی کی شکار ہے‘‘  اور اُس میں سب سے پہلے نمبر پر یہ سوچ ہے کہ ’’کیا کہیں گے لوگ‘‘  خواہ آپ طرزِ زندگی کے بارے میں مشورہ کریں، تعلیم کے میدان کے بارے میں گفتگو کریں، کیرئیر و روزگار کے بارے میں گفتگو کریں۔ بیٹا یا بیٹی کے نکاح کامعاملہ ہو یا جنازہ و میّت اور میراث کا معاملہ سامنے آ جائے، ہر جگہ شریعت کی کھلے عام دھجّیاں اُڑائی جاتی ہیں، اور رسمی طور طریقے پر ہی عمل کیا جاتا ہے۔ 

عذر 

یہ ہمارے یہاں نہیں ہوتا۔ 

یہ سب ہم لوگ نہیں مانتے۔ 

یہ طریقہ اُس طرف کا ہے۔ 

وہ زمانہ اور تھا۔ 

ایسا کہاں کوئی کرتا ہے۔ 

باپ دادا کے زمانے سے چلتا آ رہا ہے۔ 

ہمارے باپ دادا نے ایسا کبھی نہیں کیا۔

جب اجتماعی کام یا معاملہ کی بات آئے توعذر کیسے ہوتے ہیں؟

ہماری کہاں اتنی اوقات ہے۔

ہم اتنا نہیں دے سکتے۔

ہم اِس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے۔

اور بھی کئی قسم کے جملے آپ نے سنے ہوں گے، جس میں زیادہ تر منفی رویّہ ہوتا ہے، اُسے ہم یہاں لکھ نہیں سکتے۔ آپ کے ذہن میں جتنا بھی آ جائے، وہ کم ہی ہوگا۔ وہ سارے منفی خیالات و جملے ہماری قوم میں بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں۔ یہ سکھانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔

آخر یہ ڈبل اسٹینڈرڈ کیوں؟ کیا مسلم قوم مالی اعتبار سے کمزور ہے؟ یا تعلیمی اعتبار سے کمزور ہے؟ یہ دونوں عذر بیان کرکے کچھ لوگ اپنی روزمرہ کا خرچہ نکالتے رہتے ہیں، وہ بھی اُن لوگوں سے جو جذباتی بن کے اللہ کی راہ میں مال خرچ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

مال کی کوئی کمی نہیں ہے، ورنہ جس طرح شادیوں میں وقت اور مال کا ضیاع ہوتا ہے۔  وہ بھی آپ کی نظروں کے سامنے ہے۔

کیسے کہا جا سکتا ہے کہ یہ قوم مالی طور پر غریب ہے۔ 

یہ تو ذہنی طور پر غریب ہے۔

سنجیدہ موضوع پر گفتگو کرنی ہو تو  

’’وقت نہیں ہے۔ ’’ابھی ذرا مصروفیت ہے، بعد میں بات کیجیے گا‘‘۔ 

معاملات کی خرابی کو عبادات سےپُر کرنے والی قوم، لات کھائے گی، گالیاں سنے گی۔ اور کیا اُس کا مقدر ہو سکتا ہے۔؟ ➖جائیے،  ➖معاشرے میں گھومیے، ➖دیکھیے کہ کس طرح مساجد اور مدارس پر جاہلوں اور جاہل حاجیوں کا قبضہ ہے۔ کام نہ کرنے کے کتنے بہانے اُن کے پاس ہے۔

ایک رَٹا لگایا ہوا ہے، آپ مجھے مالی تعاون کیجیے، ہمیں آپ کے مشورے کی ضرورت نہیں ہے۔

کیا کوئی بتائے گا کہ سالانہ کتنے علماء اور فضلاء اور مفتیانِ کرام مدارس سے نکلتے ہیں اور اُس میں کتنے فیصد معاشرے کے لئے کارگر اور مفید ثابت ہوتے ہیں۔ اُن پر کئے جانے والے خرچ اور نکلنے والے نتائج پر غور کریں، موازنہ کریں کہ کس طرح زکوٰۃ و صدقات کو غریبوں اور یتیموں کے نام پر اڑائے جاتے ہیں۔

دورِ موجودہ میں مسجد بنانا اور حج کرنا ہی ایک نیک کام رہ گیا ہے۔ مسجد کے نام پر چندہ کیجیے، ہر ایک دو سال میں نئی کمیٹی بدلیے، خزانچی بنئے، اپنا کام ہو جائے، نکل لیجیے۔ 

روزانہ تین گھنٹے استعمال کئے جانے والی مساجدکی عمارت پر غور کیجیے۔ کہ کس طرح اسراف کیا جاتا ہے۔ 

تعلیمی سرگرمی اگر کوئی شروع کرنا چاہے تو روکا جاتا ہے۔

غربت اتنی کہ دال روٹی بھی نہیں کھا سکتے۔

اور مال اتنا کہ پیر کو بکرا دے آتے ہیں۔

کیا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ یہ قوم ذہنی پسماندگی کی شکار نہیں ہے؟

مال کی نمائش کا ایک طریقہ اور رائج ہونے لگا ہے۔ وہ ہے بے وقت عقیقہ کا رواج۔ بچے کی ولادت سے پہلے اور بعد کئی قسم کے مفروضے تیار کر لئے جاتے ہیں۔ مثلاً زچہ کمزور ہے، ابھی تو بہت روپیہ خرچ ہوگیا۔ بہت تنگی آ گئی ہے۔ 

’’بعد میں دھوم دھام سے کریں گے۔ ‘‘

حالاں کہ عقیقہ ساتویں دن کرنا سنت ہے۔ باقی جو بھی ہے وہ ڈھکوسلا یا رواج ہے، اسے آپ اپنی من مرضی بھی کہہ سکتے ہیں۔ یا مولویوں کی شکم پروری۔ ➖بہت سے معاملات اور عبادات میں ہمارے طریقے اصحاب السبت کی طرح ہے۔ ہمیں خوف آتا ہے ہم یقیناً اصحاب السبت کے طریقے پر چلتے ہوئے اللہ کی پکڑ میں آئیں گے، یا آئے ہوئے ہیں۔ کیوں کہ پہلے کی قوموں کی طرح اُمّت محمدیہ(ﷺ) پر ناگہانی آفت تو آئے گی نہیں، لیکن آزمائش تو آتی رہے گی۔ جس کا حل ہمیں سنت کے مطابق ہی کرنا پڑے گا۔

حدیث شریف میں ہے کہ

کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَةِ  فَاَبَوَاہُ  یُہَوِّدَانِهٖ اَوْ یُنَصِّرَانِهٖ اَو یُمَجِّسَانِهٖ (بخاری ومسلم)

ہر بچہ فطرتِ پر پیدا ہوتا ہے مگر اس کے والدین اسے یہودی و عیسائی اور مجوسی بنا دیتے ہیں۔

اب ہم اپنی اولاد کو کیا بنا رہے ہیں، اُس پر ہمیں خود ہی غور کرنا ہوگا۔ دوسروں کو ہماری اولاد کے بننے یا بگڑنے سے کوئی زیادہ واسطہ تو نہیں ہے۔ ہاں ہماری اولاد کے بگڑنے سے معاشرے میں ہمارے ساتھ ساتھ ہماری قوم کو بھی بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے ’’ایک گندی مچھلی پورے تالاب کو گندہ کر دیتی ہے‘‘ حالاں کہ عقل مند انسان اپنے آپ کو گندگیوں سے بچاتے ہوئے گزر جاتا ہے۔ تقویٰ کا یہی اصول ہے اور متقی کی یہی پہچان ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے۔ آمین


فیروزہاشمی،ہیلتھ کنسلٹنٹ، نوئیڈا

10th Oct. 2023


عید یومِ محاسبہ و معاہدہ

 ⬅️’’عید‘‘  یومِ محاسبہ و معاہدہ ➡️ عمومی طور پر دنیا میں مسلمانوں کے تین تہوار منائے جاتے ہیں، جو کہ خوشی، معاہدہ، محاسبہ، ایثار وغیرہ کا پ...