Friday, July 21, 2023

🌹🌹🌹’’اماموں کی قدر کریں‘‘🌹🌹🌹



ابھی گزشتہ چند برسوں میں مختلف طرق سے ’’اماموں کی قدر کریں‘‘ یا ’’علماء کرام کی قدر کریں‘‘ جیسے عنوانات سے مختلف لوگوں کی باتیں سامنے آ رہی ہیں۔ اور اکثر علماء کرام، حافظ قرآن یا امام و مؤذن اس بات کا رونا رو رہے ہیں۔ جس میں اکثر تنخواہ یا معاوضہ کا ذکر کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ائمہ کرام اور علماء کرام کو خاطر خواہ اجرت، معاوضہ یا وظیفہ نہیں دیا جاتا۔

اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر ہمیں پورا یقین اور بھروسہ ہے۔ کئی ویب سائٹ اور فتاویٰ پورٹل پر اماموں کے حقوق سے متعلق فتویٰ اور احادیث کا حوالہ موجود ہے۔ مثلاً

’’ امامِ مسجد کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟

مسجد کے امام اور علماء کرام کے ہم پر کیا حقوق ہیں اور انکے گھر والوں کے ہمارے گھر والوں پر کیا حقوق ہیں؟‘‘

جواب میں بتایا یہ گیا کہ 

  اسلام اور مسلم معاشرے میں امامت ایک معزز منصب رہا ہے اوراس پر فائز رہنے والے لوگوں کوعام و خاص ہر طبقے میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے، کیونکہ امام ملازم نہیں، بلکہ قوم کا قائد ورہبر ہے، ائمہ کرام کا احترام اور ان کی خبر گیری کرنا تمام مسلمانوں کی انتہائی اہم ذمہ داری ہے۔

امامت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ایک حدیث  نقل کی ہے کہ

"اَنّ رَجُلًا اَتَی النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فَقَالَ مُرْنِیْ بِعَمَلٍ اَعْمَلُہُ، قَالَ  کُنْ اِمَامَ قَوْمِکَ، قَالَ  فَاِنْ لَمْ اَقْدِرْ، قَالَ کُنْ مِنْ مُؤذِنِھِمْ"۔

ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی  خدمت میں حاضر ہوئے اور انھوں نے دریافت کیا کہ اللہ کے رسول! مجھے کوئی کام بتائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  اپنی قوم کے امام بن جاؤ تو انھوں نے کہا، اگر یہ ممکن نہ ہو تو؟  توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”پھرموٴذن بن جاوٴ“۔

(شرح عمدة الفقہ ج3، ص139، ط  شبکة مشکاة الاسلامیہ )

اس حدیثِ پاک سے واضح طور پر یہ معلوم ہوتاہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں امامت اور مؤذنی ایک اعلیٰ اور شرف والاعمل تھا، اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو اس کی تلقین فرمائی، اس لئے اہل محلہ کی ذمہ داری ہے کہ امام کی ضروریات کا خیال رکھیں، اُسے اتنی تنخواہ دی جائے، جو اُس کی ضروریات کے لئے کافی ہو اور اُس علاقے کے متوسط فرد کی تنخواہ کے برابر ہو اور اس کی غلطیوں کے پیچھے نہ پڑیں، کیونکہ وہ بھی ہماری طرح انسان ہیں، فرشتے نہیں ہے۔

’’افسوس کی بات ہے کہ آج ائمہ کرام اور علماء کرام کی ناقدری ایک عام وبا کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے، ایک شخص کو امام بھی بنایا جارہا ہے اور اس کی ناقدری بھی ہو رہی، امام کی عزت وعظمت ایک مسلمان کا وطیرہ ہونا چاہیے۔‘‘

اس آخری جملہ سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ جس حدیث کے حوالہ سے علماء کرام کی قدر ثابت ہوتی ہے،  اُسی کی تشریح میں افسوس کا اظہارکیا جا رہا ہے۔ آخر جس صحابی کا حدیث میں ذکر کیا گیا؛ وہ یقیناً پڑھے لکھے اور ہوشیار بھی ہوں گے۔ سماجی ضرورتوں کو شرعی اعتبار سے سمجھتے ہوں گے۔

(پڑھے لکھے سے مراد آج کے کتابی اور آٹھ دس برس مدرسے میں گزارنے والے مولوی اور عالم قطعی نہیں ہیں۔ یہ صحابی وہ ہیں جنہیں معاشرہ کی ضروریات کا علم بھی ہے اور وہ دور اندیش بھی ہیں)

اب آگے کی حدیث ملاحظہ فرمائیں

نبی اکرمﷺ کا فرمان ہے کہ "اکرموا حملة القرآن فمن اکرمھم فقد اکرمنی"

ترجمہ حاملین قرآن (حفاظ و علماء کرام ) کا اکرام کرو، جس نے ان کا اکرام کیا، اس نے میرا اکرام کیا۔

(الجامع الصغیر للسیوطی ج 1، ص145)

ایک اور حدیث میں ہے کہ "حامل القرآن رایة الاسلام فمن اکرمہ فقد اکرم اللہ و من اھانہ فعلیہ لعنة اللہ"

ترجمہ حاملین قرآن اسلام کا جھنڈا اٹھانے والے ہیں، جس نے ان کی تعظیم کی، اس نے اللہ کی تعظیم کی اور جس نے ان کی تذلیل کی،اس پر اللہ تعالی کی لعنت ہے۔

(کنزالعمال ج 3، ص139، ط موسسة الرسالة، بیروت)

مذکورہ احکام کے علاوہ بھی مختلف احادیث میں امامت صلوٰۃ کرنے والے اور مؤذن کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے اور ہمیں بھی یقین ہے کہ یہ قابل قدر عمل ہے۔

لیکن میرا سوال یہاں پر یہ ہے کہ ’’علماء کرام کو یہ درخواست کیوں کرنی پڑ رہی ہے؟‘‘ یہاں تک کہ فتویٰ کے ایک حصہ (پیرا گراف) میں عوام کے رویّہ پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔

مذکورہ احادیث اور دیگر علماء کرام کے خیالات کا مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ امام و مؤذن کے لئے متقی، صاحب ورع ہونا ضروری ہے۔ یہاں تک وہ لوگ جو دینی ادارے چلاتے ہیں، یعنی مہتمم یا متولی ہیں؛ اُن کے اندر بھی مذکورہ صفات ہونا بہت ضروری  اور لازمی ہے۔

حضرت کعب الاحبار ؓسے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے پوچھا ! مجھے بتائیے تقویٰ کیا ہوتا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ کیا آپ کبھی خار دار دشوار راستے سے گزرے ہیں؟ آپ نے فرمایا !ہاں تو حضرت کعب الاحبار ؓ نے پوچھا، بتاؤ خاردار جھاڑیوں والے راستے سے گزرتے ہوئے تمہارا طریقہ کار کیا ہوتا ہے ؟آپ نے فرمایا ،ڈرتا ہوں۔ دامن بچا کر چلتا ہوں یعنی نہایت احتیاط سے دامن سمیٹ سمیٹ کر قدم بچا بچا کر گزر تا ہوں، اس خدشے کے پیش نظر کہیں دامن چاک نہ ہو جائے ، کہیں پاؤں زخمی نہ ہو جائے ،جسم چھلنی نہ ہو جائے۔حضرت کعب الاحبارؓ نے فرمایا، بس یہی تقویٰ ہے کہ گویا یہ دنیا ایک خاردار جنگل ہے، دنیاوی لذات اور خواہشات نفسانی اس کی خاردار جھاڑیاں ہیں جو ان خواہشات و لذات کے پیچھے چلا گیا ،اس نے اپنا دامن تار تار کر لیا اور جو بچ گیا ،وہ صاحب تقویٰ ہوا۔

تقویٰ کا اصل مرکز دل ہے، البتہ اس کا اظہار مختلف اعمال کے ذریعے ہوتا ہے۔ جیساکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم)نے دل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تقویٰ یہاں ہے۔ (صحیح مسلم)غرض تقویٰ اصل میں اللہ تعالیٰ سے خوف ورجاء کے ساتھ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے طریقے کے مطابق ممنوعات سے بچنے اور اوامر پر عمل کرنے کا نام ہے۔ 

حضرت علی ؓ کا ارشاد گرامی ہے معصیت پر اصرار نہ کرنا اور اپنی عبادت پر ناز و اعتماد نہ کرنا تقویٰ ہے۔‘‘ حضرت ابو دردا ءؓ نے فرمایا  ’’تقویٰ ہر قسم کی بھلائی کا جامع ہے یہ وہ چیز ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اولین و آخرین کو حکم دیا ہے۔‘‘

اب جو علماء کرام بھی علماء کی ضرورت کا خیال رکھنے سے متعلق بات کرتے ہیں وہ عموماً مالی تعاون کی درخواست لگتی ہے۔ یہ ہونا بھی چاہیے کہ اگر عالم با عمل، صاحبِ ورع و تقویٰ اس طرح کی خدمات انجام دے رہا ہے تو اُس کی ضرورتیں پوری کرنا عوام کی ذمہ داری ہے۔ اور جہاں تک میںنے دیکھا ہے کہ عالم با عمل حضرات کو اس طرح کی درخواست کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔

ہاں وہ لوگ ضرور اِس طرح کی درخواستیں کرتے ہیں جنہوں نے اپنے آپ ضرورت سے زیادہ ہوشیار، قابل، اہلِ علم اور صاحب ورع وغیرہ سمجھ لیا ہے۔ اُن میں اکثر وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے چند ابتدائی کتابیں پڑھ کے یا چند علماء کرام کی صحبت میں رہ کر کچھ سیکھ لیا ہے اور اپنے لئے گاؤں یا محلہ میں مسجد یا مدرسہ پر قابض ہوئے بیٹھے ہیں، تو ایسے لوگوں کو شکایت رہے گی۔ اور ہمیشہ رہے گی۔ میرے نزدیک ایسے لوگ علماء سو میں شمار ہوتے ہیں۔ یعنی شکم پرور مولوی۔ آپ بھی جائیے سروے کیجیے، دیکھیے، یہ جو منہ میں غلاظت بھرنے میں مال خرچ کرتے ہیں؛ وہ کہاں سے آتا ہے؟ اور بیڑی، سگریٹ، تمباکو، گٹکھا کے عادی کیوں اور کیسے بنے؟  آج سے پندرہ سال قبل اپنے ایک ساتھی کے ساتھ کسی کام سے دہلی جانا ہوا تو انہوں نے کہا کہ میرا ایک ساتھی یہاں رہتا چلیے، ذرا اُن سے بھی ملاقات کر لیتے ہیں۔ ہم اُن کے ساتھ چلے گئے؛ معلوم ہوا کہ وہ بہت ’’جگاڑو‘‘ مولوی ہیں۔ دہلی کی کچی کالونیوں میں کئی مدرسہ کے مہتمم ہیں۔ باقی باتیں وہ خود کرتے رہے۔ اور چالیس منٹ کے عرصہ میں انہوں نے تقریباً پانچ سگریٹ پھونک دیا۔ مزید کیا کیا اخلاقی برائیاں اُن میں رہی ہوں گی؛ مجھے نہیں پتا۔

ہمارے علاقے میں کئی مسجدیں قائم ہو چکی ہیں؛ اور اکثر میں یہی دو ٹکے کے شکم پرور مولویوں نے قبضہ جما رکھا ہے۔ کیوں کے علاقہ کے عوام کا مزاج اُن کے مزاج سے ملتا جلتا ہے۔ نہ ہماری قوم کو حق کی رہنمائی کرنے والا مل رہا؛ یا دوسری صورت میں حق کی رہنمائی کرنے والے یا بولنے والے کی ایسی جگہوں میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ لہٰذا وہ قابل اور حق پرست مولوی اپنی عزت بچانے کے خاطر دیگر علاقوں اور میدانِ کار کا رُ خ کرتے ہیں۔ چوں کہ ایسی رہنمائی احادیث میں بھی موجود ہیں۔ تو وہ قابل اور اہل مولوی اور عالم ایسے علاقوں میں اپنی خدمات دے کر لوگوں کے طعنے کیوں سنیں؟

جب معاشرے کی بگاڑ پر بحث چھڑتی ہے تو ایک رائے یہ بھی آتی ہے کہ ’’کیا کیا جائے؟ یہاں تو پورے کا پورا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ بس جیسے لوگ چل رہے ویسے ہی چلئے‘‘۔  یہ خیالات اُن کے ہیں جو سماج میں کوئی حیثیت بھی رکھتے ہیں۔ لیکن چوں کہ اُن کی باتوں یا اُن کی کارکردگی کو اکثر لوگ ناکار دیتے ہیں، اِس لئے وہ محلہ میں ہونے کے باوجود محلہ کے لئے نہ ہونے کی حیثیت میں ہوتے ہیں۔

مذکورہ بگاڑ میں جو سب سے اہم پہلو سامنے آتا ہے وہ ہے اناپرستی (egoism)۔  اس کا شکار ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ بھی ہے اور اَن پڑھ طبقہ بھی۔ اور جو جاہل ہیں وہ تو سماج کے لئے ناسور بن چکے ہیں۔ (جاہل سے مراد ابوجہل کی خصلت والے) یہ ابوجہل تو چلا گیا لیکن اُس کی حرکتیں اُمت مسلمہ کہی والی جماعت کے کچھ لوگوں میں پائی جاتی ہے اور یہ جہالت نسل در نسل جاری ہیں۔ اور نتیجہ بھی سامنے ہے۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ کا ذکر کرنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے؛ جو میرے سامنے ہو رہا ہے۔ اور ہم خود اتنے نا اہل ہو چکے ہیں کہ اِس دقت یا پریشانی کو دور کرنے میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں۔

قریباً پندرہ برس کے بعد مجھے اپنے آبائی گاؤں جانے کا اتفاق ہوا۔ چوبیس گھنٹے میں دیکھا کہ جس طرح دوسرے گاؤں اور شہروں میں گھروں اور سوچ کی تبدیلی آئی ہے وہی یہاں بھی ہوا۔ یعنی لوگوں کے کچے مکانات پکے میں تبدیل ہو گئے۔ سوچنے کا معیار ’’اپنا کام بنتا بھاڑ میں جائے جنتا‘‘ ہو چکا ہے۔ مسجد میں نمازیوں کی تعداد ویسے ہی ایک صف والی۔ ہاں بچوں کی تعداد کم ہو گئی ہے۔ ہمارے بچپنے میں بچوں کی تعداد آدھا سے زیادہ صف کی ہوا کرتی تھی۔ اس واقعہ کا سرا ۱۹۸۲ء کے اُس واقعہ سے جوڑنے پر پتا چلتا ہے کہ کوئی خاص بہتری گزشتہ چالیس برس میں دیکھنے کو نہیں ملا۔ جب میں عربی کی دوسری کلاس میں پڑھا کرتا تھا۔ اور اُسی گاؤں کے دو بچے اور حافظہ میں پڑھ رہے تھے۔ ایک حافظ قرآن ہونے کے بعد سالانہ تراویح اپنے گاؤں کے علاوہ دیگر گاؤں میں بھی سناتا رہا اور روزی کے بندوبست کے لئے اُس نے امبروڈی کا کام کرنے لگا۔ دوسر ا حافظ بننے کے بعد عربی کی جماعتیں پڑھی، عمدہ عالم، خوش الحان حافظ و قاری بنا۔ گاؤں کی مسجد میں پنج گانہ نماز کے علاوہ خطبہ جمعہ، عیدین وغیرہ کی بھی ذمہ داری نبھانے لگا۔ گاؤں کے لوگوں میں بگاڑ کا ذہن اُس وقت بنا جب کچھ لوگوں کے دماغ میں مسلک کا دیمک داخل ہو گیا اور وہاں بھی مسلکی بگاڑ شروع ہو گیا۔ احکامِ خداوندی اور طریقۂ محمدی (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اللہ اور رسول کے نام پر پیروں سے روندا جانے لگا۔ اُن خرافات کا اُس نازک ذہن عالم و حافظ اکیلا مقابلہ کرتا رہا یہاں تک کہ سنت کی پامالی اُس سے برداشت نہیں ہوسکا تو وہ ذہنی طور پر مفلوج ہو گیا۔ بیوی بچوں کو چھوڑکر ملک عدم چلا گیا۔ یوں سنت کی پامالی کے ساتھ ساتھ ایک دین پرور گھر بھی برباد ہو گیا۔اور ہمارا دینی سرمایہ بھی۔

اب۱۹۸۲ء  کا وہ واقعہ بھی سنئے کہ ہمارے بزرگوں نے کس خواہش کا اظہار کیا تھا۔ دو بچوں سے قرأت اور مجھ سے تقریر سننے کے بعد ارادہ ظاہر کیا گیا کہ ہم بھی اپنے گاؤں میں مدرسہ کھولیں گے اور بچوں کو دین کی تعلیم دیں گے۔ باہر کے نادار طلبہ کو بھی رکھیں گے۔ میں نے سوال کیا کہ اُن کا خرچ کیسے پورا کیا جائے گا؟ کون اٹھائے گا اُن کا خرچ؟ جواب تھا ’’چندہ کریں گے‘‘ کون کرے گا؟ آپ ہی لوگ مدرس بن جانا اور آپ ہی لوگ چندہ کرنا۔ اپنے گاؤں سے یا باہر سے بھی؟  جیسے ہوتا آرہا ہے۔  

میں نے کہا ’’اگر اِس گاؤں کے لوگ اپنے بچوں کا خرچ نہیں اٹھائیں گے اور باہر سے لائے گئے بچوں کا خرچ نہیں اٹھائیں گے تو ہم ایسے منصوبے میں شامل نہیں ہوں گے۔‘‘ وہ دن اور آج کا دن؛ فرق کیا آیا؟ جتنے جاہل پہلے تھے، اس سے بھی زیادہ جاہل اب بن گئے۔ بچوں کو عصری تعلیم دلا کر پختہ مکانات بنا لینا کامیابی کی علامت سمجھ لی گئی۔ نماز پڑھانے کے لئے جاہل مولوی یا حافظ کو رکھ لیا گیا۔ نہ لوگوں کے رابطے آپس میں ہیں؛ کوئی کسی کی خیریت تک نہیں پوچھتا۔ مالدار افراد اپنے مال کے زعم میں چودھری بن رہے ہیں۔ شوگر اور ہارٹ پروبلم کی خیریت بتا رہے ہیں۔ اور اُس پر بڑے فخر سے ڈاکٹر کا ذکر کر رہے ہیں جس کی فیس پانچ ہزار روپے ایک وزٹ کی ہے۔ یہ اُن کی ذہنی کرامات ہے۔ جس کے ذریعہ وہ لوگوں پر دھونس جما رہے ہیں۔ نہ خود دیندار بنے نہ بچوں کو بنایا!!! جب آپ شوگر اور بی پی نپوا رہے ہیں تو کل آپ کے بچے بھی کچھ ایسا ہی کرنے والے ہیں۔ کماتے کماتے بیمار ہوتے ہیں اور صحت حاصل کرنے کے لئے کمائی ہوئی دولت لٹا رہے ہیں۔  یہ ’’ذہنی پستی کی عمدہ مثال ہے‘‘  یہ جاننے کے بعد کسی کو کچھ کام کی بات سمجھ میں آ جائے تو اپنی زندگی کو سنت کے مطابق ڈھال کر دنیا اور آخرت سنوار لینا۔ نہ سمجھ میں آئے تو جیسا چل رہا، وہ بہت اچھا چل رہا ہے۔ صبح سو کر اٹھو اور لگ جاؤ کام پر۔ وہ اِس لئے کہ بیٹی کی شادی کا خرچ اٹھانا۔ ایک دن کا بادشاہ خریدنا ہے۔ اور بیٹا کو پڑھا لکھا کر نوکر بنانا ہے۔ پھر اُسے بھی ایک دن کا بادشاہ بنا کر لڑکی والوں سے وصولنا ہے۔ بچی ہوئی دولت عمر کے آخری حصہ میں شوگر بی پی کنٹرول کرنے میں خرچ کرنا۔ کم پڑ جائے تو چندہ کرنا۔ 

یاد رہے چندہ کرنا تو ہمارا پیدائشی حق ہے۔ اسے مت گنوانا۔ اور آخر میں تو سب کا جیسا ہوا ویسا ہی ہمارا بھی ہوگا۔ منوں مٹی تلے دب جائیں گے۔ پھر وہی دو ٹکے کے مولوی آئیں گے اور ہماری بخشش کروانے کے لئے ہمارے بچوں کو ہماری نااہلی کا حوالہ دے کر اپنا پیٹ بھریں گے۔ اور چلے جائیں گے۔ اور یہ سال میں دو سے چار بار تو ہوتا رہے ہیں۔ اب آپ اِس پر بھی غور کر لیجیے کہ ہر گھر میں دو چار بار یہ ہوگا تو پورے گاؤں سے سال بھر اُن مولویوں کا پیٹ تو بھرتا رہے گا۔ 

ساتھیوں! بہت ہی ذہنی اضمحلال میں مبتلا ہو کر یہ واقعہ اور حالات رقم کر رہا ہوں۔ برائے کرم ’’دین‘‘ خود سیکھو اور اپنی اولاد کو بھی سکھاؤ۔ ورنہ نوکری اور چاپلوسی کرتے ہوئے اِس دنیا سے چلے جاؤ گے۔ نہ دنیا میں مزا لئے نہ آخرت میں مزا لے پاؤگے۔ مسلک کی تعلیم دے کر اپنا پیٹ بھرنے والے مولویوں سے بچو۔ یہ ہماری قوم کے لئے ناسور ہیں۔ یہ بائیکاٹ گینگ نہ دنیا میں آپ کو کسی کام کا رہنے دیں گے اور نہ ہی تمہاری آخرت سنورنے دیں گے۔ کیوں کہ آپ نے اپنے کو اُن کے رحم و کرم پر چھوڑا ہے۔ اپنے آپ کو رب کے حوالہ کرو۔

فیروزہاشمی، نوئیڈا، یو پی، بھارت

مضمون نگار، نئی شناخت کے ایڈیٹر، ہیلتھ اینڈ نیوٹریشنل کنسلٹنٹ ہیں۔

یکم فروری ۲۰۲۳ء


عید یومِ محاسبہ و معاہدہ

 ⬅️’’عید‘‘  یومِ محاسبہ و معاہدہ ➡️ عمومی طور پر دنیا میں مسلمانوں کے تین تہوار منائے جاتے ہیں، جو کہ خوشی، معاہدہ، محاسبہ، ایثار وغیرہ کا پ...