Saturday, March 23, 2024

عید کی خریداری

 عید کی خریداری

جوں جوں عید قریب ہوتی جارہی ہے لوگوں میں خریداری کا رُجحان بڑھتا جاتا ہے اور جلد بازی کی جاتی ہے، کیوں کہ ریڈی میڈ کپڑے بازار سے کم نہ پڑ جائیں، یا سلائی کرنے والے انکار نہ کردیں۔ جب کہ اس موقع پر کپڑے، سلائی، خوردنی اشیاء کی سپلائی بڑھانی بہت ضروری ہوتی ہے۔ عام دنوں کے مقابلے اس ماہ میں کھانے پینے کا چلن کچھ زیادہ ہی ہو جاتا ہے۔ ایسے موقع پر جہاں لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے اور بتاتے ہیں اور خریداری میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں، وہیں دوسری طرف لوگوں کے عجیب و غریب مشورے کئی لوگوں کو مزید اُلجھن و پریشانی میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ خواہ پورے گیارہ مہینے مستحب مسائل، سنت و نوافل، مسواک، توتھ پیسٹ وغیرہ کے بارے میں کوئی دقت یا فکر نہیں ہوتی؛ یہاں تک کہ حلال و حرام کی بھی پروا نہیں ہوتی۔ …کتنے فرائض چھوٹے، …کتنی سنتیں چھوٹیں  …یا پامالی ہوئیں،  …کوئی غم نہیں۔  …لیکن اس ماہ میں سب سے زیادہ فکر ہوتی ہے۔

آخر کیوں؟

یاد رکھیے سارے اصول ویسے ہی اِس ماہ میں بھی رہتے ہیں، صرف نیکی کا اجر ستر گنا سے سات سو گنا ہو جاتا؛ اس کا بہر حال ہمیں فائدہ اٹھانا چاہیے،  …لیکن عام دنوں میں فرائض کو چھوڑنے کا گناہ کم نہیں ہو جاتا  …اور نہ ہی اُس کا بدل رمضان میں کئے گئے عبادت کے بدلے بھرپائی ہو پاتی ہے۔  …سب سے زیادہ تو حیرت مشورے پر ہوتی ہے۔ اور آج کل سوشل میڈیا اِس کام کا اہم ذریعہ ہے۔

۲۲؍مارچ ۲۰۲۳ء کی صبح ایک ویڈیو پیغام موصول ہوا جس میں اسرائیلی کھجور کے بائیکاٹ کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔

 بظاہر یہ ایک عمدہ پیغام ہے۔ 

لیکن جن کمپنیوں کے نام گنوائے گئے ہیں، اُن کے بارے میں واقفیت ہمارے کتنے فیصد لوگوں کو ہے؟

کیا اسرائیل ہمیں اَن برانڈیڈ بوریوں میں بھر کے کھجور نہیں بیچ سکتا؟

اور ابھی تازہ مشورہ ہے

’’عید کی خریداری اپنوں سے ہی کریں

اپنا کھائے گا زکوٰۃ نکالے گا

غیر کھائے گا ہتھیار نکالے گا‘‘

یعنی کہ اب سارا کام چھوڑ کے ہم یہ غور کرنے پر لگ جائیں کہ یہ جو کھانا کھا رہے ہیں، یہ کس کے ذریعہ ہم تک پہنچا ہے؟

جب کہ ہمیں سب سے پہلے اِس امر پر غور کرنا چاہیے کہ ہم علمی اعتبار سے کتنے چاق و چوبند بن چکے ہیں کہ ہم اُن کمپنیوں کے پروڈکٹ کا بائیکاٹ کریں گے؟  …ہمارے گھروں میں ہماری خود کی بنائی ہوئی کتنی چیزیں ہیں؟  …کیا ہم اپنے گھروں سے اُن اشیاء کو نکالنے کے لئے تیار ہیں، جو اسرائیلی پروڈکٹ ہیں؟  …اگر ایسا نہیں ہے تو ایک منفی پیغام پر عمل کرتے ہوئے ہم ایک کے بدلے ستر گنا ثواب حاصل کرنے کا موقع بھی گنوا رہے ہیں۔  …

اور سب سے اہم یہ کہ ہم حلال کھارہے ہیں یا حرام۔

اس طرح کے پیغامات سے منفی ذہن تو تیار کیا جاسکتا ہے،  …الجھایا تو جا سکتا ہے لیکن غور و فکر کرکے مثبت طریقہ کار نہیں اپنایا جا سکتا۔  …شیطانی ذہن پر کام کرنے والوں نے ہمارے دماغ تک کو اپنے قبضہ میں کر لیا ہے۔  …ہمارے ہی لوگ منفی پیغامات کو پرموٹ بھی کر رہے ہیں۔  …کیا پہننا ہے؟  …کیا کھانا ہے؟  …کیا برتنا ہے؟  …اس پر ہم کبھی بھی غور نہیں کرتے،  …جب کہ غور کرنے کے لئے ہمارے پاس پورے گیارہ مہینے بھی ہیں، لیکن نہیں۔  …حلق میں ایک بوند پانی چلا جائے مسئلہ پوچھا جاتا ہے کہ روزہ ہوگا یا نہیں۔  ………لیکن حرام ہمارے کھانے میں کب شامل ہو گیا،  …اُس کا احساس تک نہیں۔  ………بعض کاروباری لوگوں جو کبھی سیٹھ تھے، کے بارے میں یہ بھی پتا چلا کہ اب وہ حج کرکے آ چکے ہیں،  …اب وہ اِس سیٹ پر نہیں بیٹھتے  …نہ ہی کاروبار کرتے ہیں،  …اب یہ کام اُن کا جانشین بیٹا ہے یا کوئی عزیز کرتا ہے۔ … یعنی کہ اکثر لوگوں کا کاروبار بھی غلط طریقے سے رہا اور عمر کے آخری حصہ میں حج کر لیا  …تو  …گویا سمجھ لیا کہ  …ساری حرام کاری معاف ہوگئی۔  …ہرگز نہیں۔  …غور کر لیجیے کہ ہم نے اگر حرام کاری کی ہے تو گویا ہم نے حرام کی کمائی سے ہی خود کی پرورش پائی ہے اور اپنے بچوں کی پرورش کی ہے۔  ………اور اس کا بدل عمرہ اور حج کبھی بھی نہیں ہو سکتا۔  ………جو لوگ بھی کلمہ گو ہیں اور اللّٰہ کو معبود مان چکے ہیں، اور مُحمَّد کو رسول اقرار کر کے تسلیم کر چکے ہیں، اُن کو چاہیے کہ اپنی زندگی میں اپنے سچے اور پکے مسلمان ہونے کا ثبوت پیش کریں؛ یعنی عملی نمونہ بنیں۔

اس کا عملی نمونہ پیش کرنے کا طریقہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے رسول مُحمَّد کے ذریعہ بتا دیا ہے۔

قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللہَ فَاتَّبِعُونِى يُـحْـبِـبْــكُمُ اللہُ وَيَـغْـفِـرْ لَكُمْ ذُنُـوبَـكُمْ  وَاللہُ  غَـفُورٌ رَّحِيمٌ

(آل عمران ۳۱)

اے نبی (محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم) کہہ دیجیے کہ اگر تم اللّٰہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللّٰہ تعالیٰ تمہیں محبوب رکھے گا، اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا۔ کیوں کہ اللّٰہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

اس آیت سے اللّٰہ کی محبت کا واجب ہونا ظاہر ہوتا ہے۔ یہاں تک کے اس کی علامتیں، اس کے نتائج اور بدلہ بھی واضح ہو جاتا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ اس کے تمام حالات میں اس کے قول و فعل میں دین کی بنیادوں اور اس کی شاخوں میں رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی پیروی ضروری ہے۔ تبھی اللّٰہ تعالیٰ ہمارے گناہوں کو بخشے گا۔ اگر ہم نے احکام خداوندی کو بروئے کار لانےمیںطریقہ رسول کو نہیں اپنایا تو ہمارے اعمال بے کار ہیں۔

ایک صحیح حدیث کے حوالہ سے ہمیں یہ بتا دیا گیا ہے کہ ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ اور کس طرح سے ہمیں ذمہ داریوں کا حساب دینا ہے۔ اگر ہم نے اس حکم کا بھی خیال نہیں کیا تو یقین جانیے کہ ہم یا آپ بہت زیادہ خسارہ اٹھانے والے ہیں۔ دنیا میں ذلیل و خوار ہوں گے، بلکہ آئے دن ہو رہے ہیں؛ اور آخرت بھی تباہ ہو جائے گی۔

عَـنِ ابْـنِ عُـمَـرَ رَضِيَ اللہُ  عَـنْـهُـمَـا عَـنِ النَّبِيِّ صلی اللہ عَـلَیْہِ وَسَـلم أَنَّهُ قَالَ أَلاَ كُـلُّـكُـمْ رَاعٍ وَ كُـلُّـكُـمْ  مَسْـئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ فَالأَمِـيـرُ الَّـذِي عَـلَـى النَّـاسِ رَاعٍ وَ هُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَ هُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ بَعْلِهَا وَ وَلَدِهِ وَ هِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُمْ وَالْعَبْدُ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ وَ هُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُ أَلا فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَ كُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ

 (صحیح مسلم)

سیدناابن عمر رضی اللّٰہ عنہما نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ تم میں سے ہرشخص حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا (حاکم سے مراد منتظم اور نگراں کار اور محافظ ہے) پھر جو کوئی بادشاہ ہے وہ لوگوں کا حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کا سوال ہو گا(کہ اس نے اپنی رعیت کے حق ادا کیے، ان کی جان و مال کی حفاظت کی یا نہیں؟) اور آدمی اپنے گھر والوں کا حاکم ہے اور اس سے ان کے بارے میں سوال ہوگا اور عورت اپنے خاوند کے گھر کی اور بچوں کی حاکم ہے، اس سے اس کے بارے میں سوال ہو گا اور غلام اپنے مالک کے مال کا نگراں ہے اور اس سے اس کے متعلق سوال ہو گا۔ غرضیکہ تم میں سے ہر ایک شخص حاکم ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعیت کا سوال ہو گا۔ ‘‘

ہماری آزمائشیں ہر دور میں ہوتی رہی ہیں؛ اور ہوتی رہیں گی۔ شکل و ہیئت چاہے جیسی ہو۔ بیماریاں آتی ہیں تو وہ ہمارے گناہوں کو کم کرنے کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ یا پھر اس آزمائش پر صبر کے بدلے آخرت میں اجردیا جائے گا۔ لیکن اگر ہم آہ و زاریاں کرتے رہے اور صبر کے امتحان میں ناکام ہوئے تو نہ دنیا میں ہمارے حالات اچھے ہونے والے ہیں اور نہ ہی آخرت میں اچھا ہونے والا ہے۔

ایک طرف جہاں گیارہ مہینے میں زبانی اور سوشل میڈیا کے ذریعہ مختلف موضوعات پر بحث و مباحثہ میں گزرتے ہیں اور ویسے اِس مبارک ماہ میں بھی ہو رہا ہے۔  …روزہ کا قضا،  …فدیہ دینا،  …زکوٰۃ و فطرہ کا نصاب کیا ہے؟  …کتنے دن کی تراویح پڑھنی ہے۔؟  …کتنی رکعتیں پڑھنی ہیں؟  …تہجد اور قیام اللیل کیا ہے؟  …تراویح پڑھی یا نہیں؟ …کہاں پڑھی؟  …کتنے دن کی پڑھی؟ وغیرہ

دوستو! اِن امور کا تعلق ہماری عبادات سے ہے۔ جس کے بارے میں جاننے اور سمجھنے کے لئے کتابیں، آڈیو، ویڈیو اور علماء کرام سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔  …لیکن اُس کے لئے ذوق و شوق کی ضرورت ہے۔  …اپنے ذوق کا مطالعہ کیجیے کہ ہم کیا چاہتے ہیں۔  …ہم گلی کے نکڑ پر اِس مسئلہ کو حل کرنا چاہتے ہیں۔  …جو کہ بارآور ثابت نہیں ہو رہا ہے۔ خود الجھے ہوئے ہیں اور دوسروں کو الجھا کر وقت خراب کر رہے ہیں۔

زندگی کا ایک دوسرا پہلو معاملات کا بھی ہوتا ہے،  …جس کے بارے میں اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے خوب اچھی طرح سے رہنمائی کر دی ہے۔  …اگر ہم نے انسانی معاملات و ضروریات کو سنت کے مطابق عمل میں نہیں لایا تو یقیناً پکڑے جائیں گے۔  …کیوں کہ اِن امور کا تعلق ہماری زندگی سے ہے۔  …ہم افطار کی دعوت کراکر عبادات کو تو بہتر بنا رہے ہیں،  …… لیکن جو وقت ہماہمی میں ضائع کر رہے ہیں وہ زیادہ نقصاندہ ہے۔  جب کہ ہمیں اُس وقت کو ذکر و اذکار میں گزار کر عبادات کو بہتر بنا سکتے ہیں۔  ……افطار کی دعوت عموماً لوگوں میں رابطہ کی غرض سے کیا جاتا ہے۔  ……لیکن اب اور بھی کئی دیگر مقاصد کے لئے استعمال میں لایا جا رہا ہے،  ……اور اس مقصد کو ہم آپ جیسے لوگ خوب سمجھتے ہیں۔ اس لئے اس پر غور کر لینا چاہیے کہ نیت کے مطابق ہی اِس کا نتیجہ بھی نکلنے والا ہے۔

اِنہی عبادات کے ساتھ انسانی معاملات کا سلسلہ بھی ہوتا ہے۔  ……

جس میں لوگوں سے لئے گئے قرض ادا نہ کرنا،…… 

پبلک پیلس یا راہ داری پر قبضہ جما لینا۔ ……

اسکول، عبادت گاہ وغیرہ کے آس پاس گندگی پھیلانا۔ ……

خصوصاً خود و نوش والی عبادات کے بعد۔ ……

ویسے بھی ہماری قوم کو کھانے پینے والی ساری حدیثیں یاد رہتی ہیں۔ ……

لیکن اُس کے ذریعہ ہونے والی معاشرتی بگاڑ پر اُن کا دھیان برسوں سے نہیں گیا ہے۔ ……اور نہ ہی دھیان دلایا گیا ہے۔…… 

’’دعوت قبول کرنا سنت ہے‘‘… لیکن کیا فرض کو چھوڑ کرکے؟ ……

یہاں تک کہ’’ فرضِ کفایہ‘‘ کو ادا کرنے کے لئے بھی کئی فرائض کو چھوڑا جاتا ہے،…

جیسے کہ جنازہ میں شرکت کرنا۔ ……اور اِس کے پیچھے لوگوں کے ذہن میں یہی بات رہتی ہے کہ ……

’’لوگ کیا کہیں گے‘‘ ؟ ……

نکاح کے مواقع پر بھی فضول کھانے کے پروگراموں کے ذریعہ فرائض کو طاق پر رکھ دیا جاتا ہے۔ ……

’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘ ……کھایا ہے تو کھلانا بھی پڑے گا۔ ……

آخر ہم نے کھانے اور کھلانے کا طریقہ سنت سے کیوں نہیں لیا؟ ……

زکوٰۃ و صدقات کا بھی یہی حال ہے۔ ……

قوم کے پاس اتنی دولت ہے کہ نہ ضرورت مندوں کو دروازے دروازے جانا پڑے اور نہ مدارس کو سفیر رکھنا پڑے۔ ……لیکن ایسا ہو رہا ہے۔ ……ہم میں ایسے لوگ ہیں کہ زکوٰۃ و صدقات دینے میں گریز کرتے ہیں اور مانگنے والے مانگ کر خوش ہوتے ہیں بلکہ اُسی کو آمدنی کا ذریعہ سمجھ لیا ہے۔ ……جبکہ زکوٰۃ و صدقات کے تقسیم کا مقصد غریب و مسکین کو خود کفیل بنانا ہے۔ …………نہ کہ سال بھر پیٹ بھرنے سامان کرنا۔

اتنی تمہید باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم معاملات میں سنت کو اپنائیں، 

لوگوں کو خود کفیل بنائیں؛ 

ہر اعتبار سے، خواہ روز مرہ کی ضروریات ہو یاتعلیمی مقاصد کو پورا کرنا یا صحت و خوردنی اشیاء کی فراہمی کا معاملہ۔ یا رشتہ داری کو مضبوط کرنے کا طریقہ۔ ……سنت کو اپنائیں، 

اللّٰہ کی رضا کے لئے عبادات و معاملات کو بہتر بنائیں۔ ……

ہم دیکھ رہے ہیں اکثر معاملات کی خرابی نے ہمیں ذلت کے دہانے پر پہنچایا۔ ……معاملاتی طور پر ہمیں انسانی روابط کو فروغ دینا ہے نہ کہ بائیکاٹ اور منفی باتیں اور  رویّہ کو فروغ دے کر اپنے کو کنارہ کش کرلینا؛ ……

یہ زندگی کی علامت نہیں ہے۔ ……

ہمیں اپنی شراکت (کنٹربیوشن) پیش کرنے پر غور کرنا چاہیے۔ ……

یہی سب سے ضروری کام ہے۔ ……

اللّٰہ تعالیٰ ہمیں معاملات میں بہتر بنائے؛ تاکہ ہم انسانیت کے لئے بہتر ثابت ہو سکیں۔آٰمین 

ختم شد 


Friday, February 23, 2024

➗ ➗زندگی یوں ہی تمام ہوتی ہے ➗ ➗

 ➗ ➗زندگی یوں ہی تمام ہوتی ہے ➗ ➗


دورِ رواں میں اب تقریباً اکثریت کی زندگی کا مقصد کھانا پینا، سونا، گھومنا پھرنا،دنیا کی آسائشیں حاصل کرنا، استعمال کرنا اور مرجانا ہے۔جبکہ ایک مسلم قوم کی زندگی کا مقصد اور نصب العین اعلاء کلمۃ اللہ کے سوا کچھ نہیں ہونا چاہیے۔ جیسا کہ قرآن مجید کی اس آیت میں تعلیم دی گئی ہے۔

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا تَتَّخِذُوٓا آبَاءَكُمْ وَاِخْوَانَكُمْ اَوْلِيَآءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْاِيْمَانِ ۚ وَمَنْ يَّتَوَلَّـهُـمْ مِّنْكُمْ فَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الظَّالِمُوْنَ 

قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَاَبْنَآؤُكُمْ وَاِخْوَانُكُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيْـرَتُكُمْ وَاَمْوَالُ  ِۨ اقْتَـرَفْتُمُوْهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَـرْضَوْنَـهَآ اَحَبَّ اِلَيْكُمْ مِّنَ اللّـٰهِ وَرَسُوْلِـهٖ وَجِهَادٍ فِىْ سَبِيْلِـهٖ فَتَـرَبَّصُوْا حَتّـٰى يَاْتِىَ اللّـٰهُ بِاَمْرِهٖ ۗ وَاللّـٰهُ لَا يَـهْدِى الْقَوْمَ الْفَاسِقِيْنَ 

(سورہ توبہ آیت ۲۳، ۲۴)

اے ایمان والو! اپنے باپوں اور بھائیوں سے دوستی نہ رکھو اگر وہ ایمان پر کفر کو پسند کریں، اور تم میں سے جو ان سے دوستی رکھے گا سو وہی لوگ ظالم ہیں۔

کہہ دے اگر تمہارے باپ اور بیٹے اور بھائی اور بیویاں اور برادری اور مال جو تم نے کمائے ہیں اور سوداگری جس کے بند ہونے سے تم ڈرتے ہو اور مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیارے ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم بھیجے، اور اللہ نافرمانوں کو راستہ نہیں دکھاتا۔

مذکورہ آیت میں اسی بات کی تعلیم دی گئی ہےکہ ہمیں ایمان والوں کو اپنا دوست یا رفیق بنانا چاہیے۔ اور اگر ہمارے بھائی یا باپ اگر ایمان پر کفر کو ترجیح دیتے ہیں تو ایسے لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کرنا ضروری ہے۔

إِن يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهُ ۚ وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَيَتَّخِذَ مِنكُمْ شُهَدَاءَ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ

(سورہ آل عمران آیت  ۱۴۰)

اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچی تو وہ لوگ بھی ویسی ہی تکلیف پاچکے ہیں اور یہ دن ہیں جن میں ہم نے لوگوں کے لیے باریاں رکھی ہیں اور اس لیے کہ اللہ پہچان کرادے ایمان والوں کی اور تم میں سے کچھ لوگوں کو شہادت کا مرتبہ دے اور اللہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا ۔

یہ آیت غزوہ بدر اور احد کے تعلق سے نازل کی گئی جس میں اہل ایمان اور اہل کفر کا موازنہ کیا گیا ہے۔ جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ کیسے ہم (اللہ تعالیٰ) دن و رات اور زمانے کے الٹ پھیر کے ذریعہ یاد دہانی کراتے ہیں تاکہ لوگ اپنا محاسبہ کریں کہ کیا انہوں نےاپنے آپ کو واقعی روزِ قیامت اپنے وعدے میں پورے اترنے کے قابل بنا لیا ہے؟   اگر نہیں تو یہ موقع ہے، ایسے مواقع سے فائدہ اٹھائیں۔ نا کہ خوابِ خرگوش میں سوئے رہیں اور نیند کھلے تو دنیا میں شرمندگی اور لاچاری کا سامنا کرنا پڑے اور روزِ قیامت بھی شرمندگی کا سامنا ہو۔

اس کی مزید تفصیل جاننے کے لئے تفسیر کا مطالعہ کیا جائے۔

قرآن مجید ایک دوسری آیت ۴۱، سورہ روم میںاللہ تعالیٰ نے یاد دہانی کرائی ہے۔

ظَهَرَ الْفَسَادُ فِى الْبَـرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِى النَّاسِ لِيُذِيْقَهُـمْ بَعْضَ الَّـذِىْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُـمْ يَرْجِعُوْنَ 

خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب سے فساد پھیل گیا ہے تاکہ اللہ انہیں ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے تاکہ وہ باز آجائیں۔

مذکورہ تینوں قرآنی حوالہ کو سمجھنے کے بعد کیا اب بھی اپنے آپ کو سنوارنے کے بارے میں نہیں سوچیں گے؟

جب ہر گھر سے نوجوان (عمر ۲۵ تا ۴۰ برس) یکے بعد دیگرے اللہ کو پیارے ہونے لگے توقوم کے کچھ غیور حضرات کو آج یہ فکر ستانے لگی ہے کہ بیواوں اور یتیموں کا سہارا کون اور کیسے بنے گا؟ ۔۔۔۔۔۔۔ 

آج یہ فکر ستانے لگی ہے کہ ہماری بیٹیاںپیسہ پرست بن چکی ہیں تبھی تو لالچ میں غیرمسلموں کا ساتھ پسند آرہا ہے اور چھ مہینہ کے بعد جب وہ گھر سے نکال دیتے ہیں تو ان لالچی بیٹیوں کے پاس رونے کے علاوہ کچھ نہیں بچتا۔ ’’یعنی اب پچھتاوے کیا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔ وہ تو ببانگ دہل کہہ رہے ہیں کہ ’’ہمیں تو اُن کی بیٹیوں سے پیار ہے، ہمیں مسلمانوں سے نفرت تھوڑے ہی ہے‘‘ ہم تو پریم پجاری ہیں۔ ہمیں تو اس کام کے پیسے دیے جاتے ہیں۔ ہم تو دو طرفہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مال اور مزا دونوں۔

آخر کب تک ہم چادر سے زیادہ ٹانگ پھیلا کر اپنے جسم کی نمائش کرتے رہیں گے؟

نکاح کو سنت طریقے پر انجام دینے میں اور کتنے  وقت انتظار کرنا ہے؟ یہ کہنا ہم کب چھوڑیں گے کہ ’’وہ زمانہ اور تھا‘‘ کیا ہم رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)کے زمانہ سے بہتر زمانہ میں جی رہے ہیں؟ ۔۔۔۔۔۔۔ کیا اس طرح کی باتیں کر کے ہم بذاتِ خود محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے پیروکار کی دعوے داری کے باوجود انکار کر رہے ہیں اور ہمیں احساس تک نہیں۔ دوسری قوم اگر ہمارے رسول کے خلاف کہہ دے تو ہمیں ہماری حمیت ایسے جاگتی ہے کہ ہم سے بڑا ایمان والا کوئی نہیں ہے۔ کھلے عام ہم سنت کی خلاف وزی کریں تو ہم پکے مومن؟؟ یہ دہرا معیار کیوں؟ یہ ڈبل اسٹینڈرڈ کیوں؟ کب تک رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مخالفت کرکے اپنے آپ کو محمدی (صلی اللہ علیہ وسلم) کہتے رہیں گے؟ 

مذکورہ سوالات جسے پڑھ کے یا سن کے آپ کو ناگوار گزر رہی ہیں، ایسا ہی ہوگا، نا گوار ہی گزرے گا۔

کیوں؟  کیوں کہ ہمارے اکابرین نے ہمیں ہر موقع پر یہی کہا کہ ’’تم ابھی بچّے ہو،  تم ابھی نہیں سمجھوگے‘‘ 

افسوس یہ کہ ہمیں سمجھانے والا ابھی تک کوئی ایسا بزرگ نہیں ملا، یا اصل میں قرآن و حدیث کو سمجھ کر مجھے سمجھانے والا نہیں ملا

ننانوے فیصد لوگوں نے رٹّا لگا کے تعلیم حاصل کی ہے، بس وہی آگے منتقل کرتے جا رہے ہیں۔

دس سے پندرہ برس کسی بھی دینی یا عصری ادارہ میں عمر خرچ کرکے کیا حاصل کیا؟

آج بھی میرے سوال جوں کے توں بنے ہوئے ہیں۔ آج بھی میرے سوالوں کے جواب نہیں ملے ہیں۔

ملیں گے بھی کیسے؟ جب سنت کو طریقہ محمدی کے مطابق عمل میں لایا ہی نہیں تو کیسے ملیں گے۔؟

مالی طور پر معاشرہ کی بہتری کا نظام صدقہ کی وصولی ہے۔کیا یہ نظام سنت کے مطابق جاری ہے؟ نہیں۔ اگر یہ سنت کے مطابق عمل میں لایا جائے تو بہت جلد مسلم قوم مالی طور پر خود کفیل بن جائے گی۔ لیکن میں تجربہ ہے کہ برسوں سے صدقہ کا نظام غیر شرعی طریقے سے رائج ہے۔ خود کفیل بنانے کا ہمارے یہاں کوئی نظام نہیں ہے۔ کوئی بھی جماعت، تنظیم یا ادارہ دعوے داری کرتی ہے کہ انہوں نے لوگوں کو خود کفیل بنایا ہے تو یہ صرف آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں تعلیمی ادارے تو بڑے بڑے ہیں، اسپتال بھی بنا لئے، اور دیگر فلاحی ادارے بھی بنا لئے لیکن تعلیمی اعتبار سے ہماری قوم کے کتنے فیصد لوگ ان اداروں میں اعلیٰ تعلیم کے لئے جاتے ہیں؟ اُن اسپتالوں میں کتنے فیصد ڈاکٹرس آپ کے کام کرتے ہیں؟  شاید ہی کوئی ایسا صوبہ بچا ہوگا جہاں مسلم قوم نے اپنے یہ تینوں ادارے قائم نہیں کئے ہوں گے۔ لیکن آپ ان اداروں کا دورہ کریں اور پتا لگائیں کہ ہماری قوم کے کتنے فیصد لوگ استفادہ کر رہے ہیں اور کتنے فیصد لوگ خدمات انجام دے رہے ہیں؟

رفاہی اداروں میں گھوم کر دیکھیے، وہاں بھی اگر تعلقاتی اور چاپلوس قسم کے لوگ ہیں تو معقول تنخواہ اورصلاحیت مند ہیں، خود دار ہیں تو ان کی اجرت دینے کے لئے جواب ہے ’’بھائی خیراتی ادارہ ہے، اتنی اجرت تو ادارہ نہیں دے سکتا۔ سوچ لیجے کرنا چاہتے ہیں تو کیجیے ورنہ کہیں اور دیکھیے۔‘‘ انٹرویو ایسے لیں گے جیسے کہ آئی ایس افسر بحال کر رہے ہیں۔ اور اجرت ’’دس ہزار روپےماہانہ‘‘ ایک گریجویٹ یا فارغ التحصیل بندہ یا بندی کیوں اس قسم کے اداروں میں کام کرے؟ آج کی تاریخ میں چار سو روپے کی دہاڑی اینٹ مٹی ڈھو کر بھی بنا لیتے ہیں۔ ایک قلی بھی ہزار روپے کی دہاڑی بنا لیتا ہے۔ ایک سبزی یا پھل فروخت کرنے والا بھی ہزار روپے کی دہاڑی نکال لاتا ہے۔ اگر ہم یہ موازنہ پیش کر رہے ہیں تو ممکن ہے یہ میرے سوچ کی غلطی کہہ سکتے ہیں کہ ’’بتاؤ بھائی یہ مولوی کس سے اپنا موازنہ کر رہا ہے‘‘ یہ اتنا بڑا فرق اور یہ غلط موازنہ کس نے قائم کیا ہے؟ ہم ہر اُس مذہب کے ٹھیکیدار سے سوال کر رہے ہیں جو اپنی کارنامے گنوا کے چندہ وصولتے ہیں اور ضرورت مندوں پر خرچ کے نام پر دس فیصد بھی نہیں۔ باقی نوے فیصد سرمایہ کس کام میں استعمال ہوتا ہے؟ یہی سب سے بڑی غلطی اور گھوٹالہ ہے جس کی وجہ سے ہماری قوم خود کفیل نہیں ہو پا رہی ہے۔

تعلیم یافتہ نہ ہونے کے پیچھے کی وجہ صرف اور صرف یہ کہ قابل لوگوں کو کام پر رکھ کر اُن کی محنت کے مطابق معاوضہ نہ دینا۔ اور خود غرضانہ نظام کو معاشرہ میں رائج رکھنا۔ اور جب تک اس سوچ کے تحت یہ نظام چلتا رہے گا، مسلم معاشرہ کبھی بھی خود کفیل نہیں ہو سکے گا۔

بات ہے ۱۹۸۲ء کی جب ہم عربی ثانیہ میں پڑھا کرتے تھے۔ ہمارے گاؤں کے دو اور لڑکے درجہ حفظ میں پڑھا کرتے تھے اور مکمل کرنے کے قریب تھے۔ شعبان میں مدرسے کی چھٹی کے بعد ہم لوگ گاؤں پہنچے ہوئے تھے۔ صلوٰۃ مغرب کے بعد مسجد کے قریب ایک صاحب کے بیٹھک میں اکثر لوگ جمع ہوتے تھے اور ایک دوسرے کی خیریت معلوم کرتے تھے۔ ہم لوگوں کو بھی شامل کیا گیا۔ حافظوں سے قرأت سنی گئی۔ مجھ سے تقریر سنی گئی۔ جوش جذبات میں لوگوں نے اپنی خواہشات کا اظہار کیا کہ ہمارے گاؤں کے تین لوگ چند سالوں کے بعد حافظ مولوی بن جائیں گے تو ہم بھی اپنے گاؤں میں ایک مدرسہ کھولیں گے، اور بچوں کو دینی تعلیم کا بندوبست کریں گے۔ ہمارا گاؤں بھی دین دار ہو جائے گا۔ میرا سوال تھا کہ کیا آپ کے پاس کوئی لائحہ عمل ایسا ہے کہ آپ بچوں کو دینی تعلیم دے سکیں گے اور انہیں خود کفیل بنا سکیں گے؟ جواب میں وہی برسوں پرانا جملہ ’’چندہ کریں گے۔‘‘ 

کون کرے گا؟ 

جیسے دوسرے مدرسے کے مولوی حافظ کرتے ہیں ویسے یہاں کے کریں گے۔ 

میں کہا کہ پھر آپ لوگ کیا کریں گے؟ 

آپ کتنے بچوں کی کفالت کریں گے؟ 

خاموشی

میں نے کہا کہ جب آپ لوگ خود اپنے سرمایہ سے اپنے گاؤں کے بچوں کوتعلیم یافتہ بنانے کا منصوبہ رکھتے ہیں تو ہم اس منصوبے میں شامل ہو ں گے۔ بصورتِ دیگر ہم اس میں شامل نہیں ہو سکیں گے۔

ظاہر ہے کہ ایک سولہ برس کے بچے کا یہ جواب چالیس سے اسی برس کے لوگوں کے لئے گراں گزرے گا۔

کیوں کہ مجھے اُن کے اندر کا جذبہ نکالنا تھا۔ افسوس یہ کہ میں اُن کے اندرونی جذبے کو آج تک نہیں نکال پایا۔ ایسا نہیں کہ ہمارے میں گاؤں کے لوگ مالدار نہیں ہیں۔ کل بھی تھے آج بھی ہیں۔ ایسے ایسے لوگ ہیں جو کم و بیش دس یتیم بچوں کی کفالت کر سکتے ہیں۔ لیکن چوں کہ یہ کام کرنا پڑے گا۔ اس میں انہیں شہرت نہیں ملے گی یا کم ملے گی۔ یتیم بچے پڑھ لکھ کر کچھ قابل بن جائیں گے۔ وہ ہمارے مالدار گھرانے کے لوگوں کو کل بھی برداشت نہیں تھا اور آج بھی ناقابلِ برداشت ہے۔ اگر یہ یتیم بچے پڑھ لکھ کر کسی قابل بن گئے تو اُن کو صبح شام سلام کون کرے گا؟  بس یہی ابو جہل والی جہالت ہماری قوم کوخود کفیل نہیں بنا پا رہی ہے۔ مالدار لوگوں میں خود نمائی کا جذبہ ختم نہیں ہو رہا۔ غریب و یتیم جو صبح شام لوگوں کے طعنے اور جھڑکی سن کے دو وقت کی روٹی کمانے کے لائق بنے گا تو اُن کی کیوں سنے گا؟ وہ تو اُس مالک کی شکر گزاری کرے گا جس نے اُسے اس قابل بنایا ہے یا بنانے میں تعاون کیا ہے۔ جن لو گوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت دے دے وہ اللہ کا شکر ادا کریں گے اور زمین پر اُس کی قدر کریں گے جنہوں نے اسے اپنے مقصد حاصل کرنے میں دامے درمے سخنے تعاون کیا ہے۔ افسوس کہ ہمارے مالدار لوگوں میں بہت کم لوگوں میں نیکی کا جذبہ پایا جاتا ہے۔

اب اُن تینوں بچوں کا کیا ہوا؟ جی ہاں ایک حافظ بنا، تراویح سناتا رہا، روزی روٹی کے لئے امبروڈری کا کام سیکھا، اور کرتا رہا۔ پڑھانے کے لئے کسی مدرسہ میں نہیں گیا ۔ 

دوسرا حافظ اور مولوی بنا، تراویح سناتا رہا، جمعہ بھی پڑھاتا رہا۔ کسی ادارہ میں بھی درس دیتا رہا۔ لیکن معاشرہ کے طور طریقہ اور قرآن و حدیث میں زبردست ٹکراؤ نے اس کا ذہنی توازن بگاڑ دیا۔ ذہنی توازن کھونے کے بعد وہ خود بھی کھو گیا۔ اللہ بہتر جانے کہاں گیا۔ یعنی جو اُس نے پڑھا اگر اس موضوع پر جمعہ میں خطاب کیا تو لوگوں کو گراں گزرتا۔ لوگ اکثر یہی چاہتے ہیں کہ ہمارے معاملات کے موضوع پر کوئی مولوی نہ ٹوکے۔  انہیں تو مسجد و مدرسہ کے لئے ایسا مولوی چاہیے جو معاشرے کی غلطیوں پر پردہ ڈالے بلکہ ہو سکے تو وہ بھی ویسا ہی کرے جیسا کہ معاشرے میں رائج ہے۔ تو اب آپ خود نتیجہ نکالیں کہ معاشرے میں بہتری کیسے آئے گی۔؟

تیسرا،  مولوی بنا،۱۹۸۹ء میں فضیلت مکمل کی، پیشہ کتابت کو بنایا، صحافت کی، سافٹوئیر ڈیولپمنٹ کیا، فی الحال ہیلتھ کنسلٹنٹ کے طور پر لوگوں کی خدمت کر رہا ہے۔ وہی اُس کی روزی کا ذریعہ ہے۔ صحت اور معاشرہ کے موضوع لکھ کر لوگوں کو جگانے اور احتیاط رکھنے کی ترغیب دلاتا ہے۔ پرانے موضوعات جو مسلم قوم کی دکھتی رگ کہی جا سکتی ہے، کبھی کبھی دبانے کی کوشش کرتا ہے، جس سے بہت سے اہل علم ناراض ہو جاتے ہیں، لیکن بہتری کا فارمولہ اُن کے پاس بھی نہیں ہے۔ یا اُن کی عزتِ نفس انہیں روک رکھی ہے۔

صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے

زندگی یوں ہی تمام ہوتی ہے

منشی امیر اللہ تسلیم

اللہ بس باقی ہوس

 ☆ ☆ ☆

از ➗  فیروزہاشمی


1st May 2021


Monday, December 11, 2023

نیوٹریشن بذریعہ نیٹ ورک مارکٹ

 نیوٹریشن  بذریعہ نیٹ ورک مارکٹ


آج کے دور میں صحت مند زندگی اور ایک اچھا روزگار ہر فرد کی ضرورت ہے۔ موجودہ حالات میں ایک طرح سے روزگاروں میں چھٹنی اور نئے روزگار پیدا نہیں ہونا ایک دشوار کن مرحلہ بن گیا ہے۔ ایسی صورت و حالت میں نئے روزگار کے بارے میں غور کرنا اور سوچنا بھی ضروری ہے۔

لیکن گھبرائیے نہیں سیکھنے اور کرنے والے کے لئے نیٹ ورک مارکٹ میں بہت کچھ ہے۔ اگر آپ نے کبھی ’’دروازے دروازے ‘‘ جا کر لوگوں کو سامان بیچا ہے یا بیچنا پسند کرتے ہیں اور کچھ نیا کرنا چاہتے ہیں تو آپ کے لئے موقع ہے اچھے پیسے کمانے کے اور اچھی زندگی جینے کے۔ آپ انگریزی میں اِس کا نام لیں گے تو لوگوں پر زیادہ اثر ہوگا۔ (کیوں کہ ہم برسوں سے انگریزی کے غلام بن چکے ہیں۔)  ’’ڈور ٹو ڈور مارکیٹنگ‘‘ یا  ’’اِن ہیرٹ بزنس‘‘ گڈ ہیلتھ اینڈ لائف اسٹائل۔ 

⚽ نیوٹریشن یعنی غذائیت کیا ہے اور غذائیت کیوں ضروری ہے؟  ⚽

سب سے بنیادی سطح پر، غذائیت ایک باقاعدہ، متوازن غذا کھانے کے بارے میں کہا جاتا ہے۔ 

اچھی غذائیت آپ کے جسم کو ایندھن میں مدد دیتی ہے۔ 

آپ جو غذا کھاتے ہیں وہ آپ کے جسم کو آپ کے دماغ، پٹھوں، ہڈیوں، اعصاب، جلد، خون کی گردش اور مدافعتی نظام کو برقرار رکھنے کے لیے درکار غذائی اجزاء فراہم کرتے ہیں۔

جسم کو برقرار یا صحت مند رکھنے کے لئےغذائیت بہت ضروری ہے۔

اس کو حاصل کرنے کا پہلا ذریعہ قدرتی غذا ہے۔ اس کا بہتر طریقہ سنت نبوی سے ملتا ہے۔ امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’طب نبوی‘‘ کے نام سے کتاب بازار میں موجود ہے۔  اور بھی کئی مصنّفین کی کتابیں معاون ہیں۔

نیچرل طریقے سے جسم کو صحت مند رکھنے یا بیمار ہونے پر علاج کے قدرتی طریقے کو نیچروپیتھی کہتے ہیں۔ 

علاج کے جتنے بھی طریقۂ کار ہیں تقریباً سبھی میں قدرتی غذاؤں کو شامل رکھا گیا ہے۔ لیکن لوگوں کے رہن سہن، حالات اور موسم کی تبدیلی نے صحت مند رہنے کے لئے کئی طرح کے مزید طریقے ایجاد کر لئے گئے ہیں۔ ابھی تک جو ہم نے مطالعہ کیا ہے، تجربہ کیا ہے، یا بھگتا ہے تو ایسی صورت میں صحت مند رہنے کے لئے ضروری ہے کہ قدرتی طریقہ کار کو اپنایا جائے۔

نیچروپیتھی اب آیوش منترالیہ میں منظور شدہ ہے۔

بیمار ہونے کے بعد علاج کے مختلف طریقے سماج میں رائج ہیں۔ جیسے ایلوپیتھی، ہومیوپیتھی، یونانی یا آیوروید۔ اس کے علاوہ بھی کئی طریقے رائج ہیں جو گھریلو کہے جاتے ہیں۔ جس کونہ تو عام لوگ اہمیت دیتے ہیں اور نہ ہی گورنمنٹ کے نزدیک کوئی اہمیت ہے۔ جیسے نسوں اور ہڈیوں کے ماہرین گاؤں دیہاتوں میں پائے جاتے ہیں۔ سانپ یا زہریلے کیڑے مکوڑے کے کاٹے کا علاج کسی بھی پیتھی میں مکمل طور پر نہیں ہے۔ یہ بھی گاؤں کے ماہرین بہت حد تک نپٹا دیتے ہیں۔ اسپتال میں تو صرف تسلی رہتی ہے۔ بس۔ 

⚽ نیوٹریشن کیا ہے؟⚽

اب رہی بات آج کے بھاگم بھاگ زندگی کی تو ایسے میں نیوٹریشنل ویلیو کی بہت اہمیت ہے۔ جس کے حاصل کرنے کا قدرتی طریقہ پھل ، سبزیاں یا آگ بغیر پکے ہوئے کھانے سے ملتا ہے۔ جس کے پاس کھانا کھانے کے لئے وقت نہیں ہے، وہ نیوٹریشنل کیپسول، ٹیبلٹ یا رَس پر گزارہ کرنا پڑتا ہے۔

اکثر آپ نے ٹی وی وغیرہ پر ریوائٹل کا اشتہار دیکھا یا سنا ہوگا۔ بہت سارے لیتے بھی ہیں۔ دماغین، چیون پراش اور مختلف قسم کے ٹانک بھی لوگ استعمال کرتے ہیں۔ جس کو جیسی سہولت یا پسند ہے وہ کرتا ہے۔

پوری دنیا میں ہزاروں کمپنیاں ایسی ہیں جو نیوٹریشنل ٹیبلٹ، کیپسول یا رَس یعنی سیرپ بناتی ہیں اور بیچتی ہیں۔ ہاں بیچنے کا طریقہ الگ ہے۔ 

⚽نیٹ ورک مارکٹ کیا ہے؟ ⚽

اکثر و بیشتر نیوٹریشنل پروڈکٹ ’’نیٹ ورک مارکٹ‘‘ کے ذریعہ عام لوگوں کو فروخت کئے جاتے ہیں۔ یہ بہت ہی پرانا طریقۂ کار ہے اپنے پروڈکٹ کو صحیح و سالم لوگوں تک پہنچانے کا۔ بہت کم ایسی کمپنی ہے جس میں تھرڈ پارٹی شامل نہیں ہے۔ ورنہ اکثر تھرڈ پارٹی کے شامل ہونے کی وجہ سے پروڈکٹ کی کوالیٹی میں کمی یا خرابی آ جاتی ہے، جس کی وجہ سے مارکٹنگ میں پروبلم آ جاتی ہے اور اِسی وجہ سے نیٹ مارکٹ میں کام کرنے والے بد ظن ہو جاتے ہیں۔  اکثر لوگ اسے پھنسے پھنسانے والا بزنس کہتے ہیں، اور کرنے والے کا مذاق بناتے ہیں۔ تھرڈ پارٹی کی شمولیت کی وجہ سے اکثر نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے۔ لیکن جو لوگ تجارت کے طور طریقے کو سمجھ لیتے ہیں، وہ شاذ و نادر ہی نقصان کے شکار ہوتے ہیں۔ اکثر لوگ بہت پیسے کماتے ہیں۔ یہاں تک ایک میڈیکل پریکٹشنر سے بھی کئی گنا زیادہ۔

اب رہی بات کہ وہ کس قدر کارگر ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ بہت ہی مناسب اورکارآمد پروڈکٹ ہوتے ہیں۔ جو مصروف لوگوں کے صحت کی ضمانت کے طور پر کارگر ہیں۔ بہت سے وہ لوگ جسے اسپتالوں نے علاج کرنے سے انکار کر دیا، یعنی یہ کہہ دیا کہ ’’لے جائیے، گھر پہ خدمت کیجیے‘‘ یا ایسا بھی ہوا کہ برسوں سے علاج کے بعد بھی افاقہ نہ ہونے پر جب اُن کو نیوٹریشن دیا گیا تو وہ چند مہینے میں صحت مند ہو گئے۔ اور بعض تو ایسے ہو گئے جیسے کہ وہ کبھی بیمار ہی نہ تھے۔

ویسےتو میرے پاس تقریباً ڈھائی سو کمپنیوں کی فہرست اور پچاس سے زیادہ کمپنیوں کے کام کاج کے بارے میں معلومات موجود ہیں جن میں اِس وقت بھی ایک مشہور نام مارکیٹ میں گردش کر رہا تھا۔ لیکن چند برسوں میں ہی اس کا نتیجہ بھی خراب آنے لگا اور لوگ کمپنی کو چھوڑنے لگے۔ گزشتہ تین برس تک بہت عمدہ ریزلٹ تھا۔ ہزاروں لوگ مختلف بیماریوں سے چھٹکارا پا چکے ہیں۔

ہندوستان میں بہت سی ایسی کمپنیاں ہیںجس میں شامل ہو کر اکثر لوگ ناکام ہوئے ہیں، کیوں کہ جوڑنے والے اکثر خود کمپنی کی پالیسی اور طور طریقے کو نہیں جانتے اور پروڈکٹ کے بارے میں تو بہت کم ہی لوگ جانتے ہیں۔ ایسی حالت میں جو کسی دوست یا ساتھی کے کہنے کی بنیاد پر کمپنی سے جُڑ جاتے ہیں، اور ساتھی پر ہی بھروسہ کر کے بزنس کرنا پسند کرتے ہیں، وہ نقصان اٹھاتے ہیں۔ اور نیٹ ورک مارکٹ سے بدظن ہو جاتے ہیں۔ اور سب سے بڑا نقصان تعلقات کی خرابی کا ہوتا ہے۔ لہٰذا بہتر تو یہ ہوگا کہ کمپنی کے طور طریقے اور پروڈکٹ کے بارے میں خود اطمینان کرکے ہی کمپنی سے جڑیں اور لطف لیں۔جو ریلائبل  یعنی قابلِ اعتماد کمپنی ہوتی ہے،ایک مناسب رقم میں اُن کے بنائے ہوئے پرڈکٹ کو خریدنا ہوتا ہے، جو آپ کو کمپنی میں شامل کرنے والے کے اسپانسر کے بعد ہی ممکن ہے۔ اگر کمپنی اپنے بنائے ہوئے پروڈکٹ آپ سے بیچتی ہے تو تب تو کمپنی قابلِ اعتماد ہے، ورنہ نہیں۔

وہ کیسے؟ کئی کمپنی ایک معینہ قیمت لے کر سوٹ پیس دے دیتی ہے کہ اس چاہے آپ خود استعمال کیجیے یا بیچ دیجیے اور اپنے جیسے دو یا چار یا دس مزید کسٹمر لائیے تو ہم آپ کو یہ انعام دیں گے، یا اپنی کمپنی کا دوسرا پروڈکٹ اتنے فیصد رعایت پر دیں گے۔ جو عموماً اُن کے پروڈکٹ بھی نہیں ہوتے بلکہ دوسری کمپنیوں کے مال کو مہنگے داموں میں رعایت کر کے بیچتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ آپ اسے خود استعمال کریں یا بیچ دیں۔ اس طرح کی کمپنیاں عموماً آپ کے پیسے سے اور آپ کی محنت سے اپنا پروڈکٹ بیچنا چاہتی ہیں، جب کہ اُسی طرح کے پروڈکٹ بازار میں آسانی سے اور کم قیمت پر دستیاب ہیں تو کمپنیوں سے اکثر لوگ ایک طرح سے ٹھگی کے شکار ہوتے ہیں۔ بلکہ آپس میں ایک دوسرے کو ٹھگتے ہیں۔ یہ آپس میں ہی ایک دوسرے کو بتاتے سکھاتے رہتے ہیں اور جوڑتے رہتے ہیں۔

جب کہ ایک ریلائبل  یعنی قابلِ اعتماد کمپنی اپنے پروڈکٹ کے ذریعہ آپ سے شروعات کرنے کو کہتی ہے۔ خود ٹریننگ کا مکمل بندوبست کرتی ہے۔ آپ کے سوالوں اور اشکالات کا تسلی بخش جواب دیتی ہے۔ اور کہتی ہے کہ اگر آپ کو اطمینان ہے تو آپ کمپنی کے طور طریقے کے مطابق کام کو سیکھیں اور لوگوں تک پروڈکٹ پہنچائیں اور پیسے کمائیں۔ 

اور روزانہ سیکھیں، تاکہ آپ زیادہ پروڈکٹ زیادہ لوگوں تک پہنچائیں اور زیادہ پیسے کمائیں۔ جب آپ سیکھ جائیں تو جن کو بھی اسپانسر کریں، اُن کی صحیح تربیت کریں۔ کمپنی کے ٹریننگ پروگرام میں شرکت کو لازم کریں۔اتفاقاً اگر آپ کسی بھی طرح پروڈکٹ بیچنے یعنی نئے کو اسپانسر کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے ہیں، تو کمپنی کے ذریعے دیئے جانے والے فری ٹریننگ سے بہت کچھ سیکھ جائیں گے۔ اتنا سیکھ جائیں گے کہ دوسری جگہوں سے ایسا سیکھنے کے لئے ہزاروں روپے ایک ایک سیمینار اٹینڈ کرنے کے دینے پڑیں گے۔ لہٰذا بہتر تو یہ ہوگا کہ آپ پروڈکٹ کے بارے میں جانیں، کئی کمپنیوں میں ایک طرح سے  بی فارما یا ڈی فارما لیول تک کی معلومات فراہم کرا دی جاتی ہے۔ بزنس میں بھی بی بی اے یا ایم بی اے تک کی تعلیم دے دی جاتی ہے۔ ایسی حالت میں بہت سارے لوگ دونوں میدانوں میں ماہر بن جاتے ہیں۔ یا پھربزنس میں ماہر ہو گئے تو اپنا اچھا خاصا بزنس تو کر ہی لیتے ہیں۔ یعنی بغیر پیسے لگائے کامیاب ہونے کی اچھی جگہ ہے۔

اور اگر آپ کو کمپنی کے طور طریقے اور پروڈکٹ پر اطمینان نہیں ہے تو آپ مزید پیسے نہ لگائیں، توجہ ہٹائیں اور دوسرے کام کی طرف راغب ہوں۔ اور جہاں لالچ زیادہ دیا جائے، خواب دکھائے جائیں تو سمجھ لیجیے آپ پھنسنے جا رہے ہیں۔

☘️🌿🍀🌱🌲🎄🌻

فیروزہاشمی، نوئیڈا، اترپردیش

۱۹؍نومبر۲۰۲۳ء

☘️🌿🍀🌱🌲🎄🌻


Saturday, October 14, 2023

🌼🌼مسلم قوم، ذہنی پسماندگی کا شکار🌼🌼


اِس جملہ میں کتنی سچائی ہے، اِس کو جاننے اور سمجھنے کے لئے معاشرہ پر بغور نظر ڈالنا ہوگا۔ اخبارات و دیگر وسائل خبر اور معلومات پر بھروسہ کرنا بھی پڑے گا۔ ساری خبریں سوشل میڈیا پر غلط نہیں ہوتیں۔ یہ الگ بات ہے کہ لوگوں نے خبروں کی بھرمار کر دی ہے۔ اکثر خبرکو جو بمشکل تِل کے برابر ہوتا ہے اُسے تاڑ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ خبروں کا تجزیہ کرنا بھی اتنا آسان نہیں ہوتا جیسا کہ عمومی طور پر سمجھا جاتا ہے۔ خبروں کی چھنٹائی کرنا بھی ایک کام ہے۔ پھر بھی اس سے جو نتیجہ سامنے آنے والا ہے، وہ سب کو چونکا جائے گا۔ لیکن اکثر لوگ اِس نتیجہ کو بالکل لاپروائی سے جھٹک دیتے ہیں۔ حالاں کہ ساری باتیں ، خبریں اور حالات جھوٹے نہیں ہوتے۔ بیٹھے بٹھائے قصہ گڑھنے والوں کی بھرمار ہے، لیکن اگر حقیقت سامنے آ جائے حالات و واقعات مدلل ہوں، روز روشن کی طرح عیاں ہو، تو پھر حقیقت سے روگردانی اپنی عقل پر بھروسہ نہ کرنے کے مترادف ہوگا۔

اکثر فیس بک پر اور واٹس ایپ گروپ میں وہ لوگ ہی زیادہ سر گرم معلوم پڑتے ہیں جوصرف وقت گزاری کرتے ہیں۔ دقّت وہاں آتی ہے، جہاں ساٹھ برس سے زائدہ عمر کے لوگ جو یا تو بزنس مین ہیں، یا پنشن پر جی رہے ہیں، یا بال بچوں سے بے فکر ہیں۔ یا اُن کی آمدنی سے گزارا ہو رہا ہو اور سب کچھ ٹھیک ہے۔ تو ایسے لوگ دنیا کے لوگوں کو مشورے دیتے رہتے ہیں، اُن کا وقت گزر جاتا ہے۔ یہ وہ سکسٹی پلس لوگ ہیں جواپنا قیمتی وقت دوسروں کو فائدہ پہنچانے میں استعمال کرنے کے بجائے، اُلجھن میں ڈالنے کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ خودبھی اُلجھن میں ہیں اور دوسروں کو بھی اُلجھن میں ڈالتے ہیں۔ کیوں کہ اکثر لوگ اُن کی بزرگی کا خیال کرتے ہوئے اُن کے مشورے پر عمل کرتے ہیں۔ حالاں کہ اُن کو اپنے میدان کے علاوہ کسی دیگر میدان کا علم اور تجربہ نہیں ہوتا۔

ساٹھ کی عمر کو پہنچنے والے یا ہو چکے لوگ عموماً اُن علاقوں کو پسند کرتے ہیں، جہاں قریب میں مسجد ہو، کیوں کہ وقت گزاری کہاں کریں گے۔ چالیس پلس جن کا روزگار درست ہے اُن کے اندر اب نیا شوق چڑھا ہوا ہوتا ہے۔ وہ کسی بھی نئے علاقے میں جا کر بستے ہیں اور اُس جگہ کو تلاش کرتے ہیں جہاں مسجد قریب ہو۔ یا اُس نئے علاقے کو تلاش کیاجاتا ہے جہاں مسجد اور مدرسہ بنانا آسان ہو کیوں کہ اِس کے نام پر چندہ بڑی آسانی مل جاتا ہے۔  یا اُس جگہ کو ڈھونڈا جاتا ہے جہاں پرانا قبرستان ہو، اُس کے نام پر بھی چندہ کرنا آسان ہوتا ہے۔ حالاں کہ یہ سب بھی نیکی کا ہی ایک حصہ ہے۔ ایسے لوگوں کی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا، لیکن تجربہ کچھ اور ہی بتاتا ہے۔ ہمارے یہاں عموماً روایت چلی آ رہی ہے کہ معاملات کی خرابی کو عبادات سے ڈھکنے یا بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جب کہ یومِ حساب کے پرچہ میں کوئی ایسا سوال یا جواب نہیں ہے کہ اگر کسی نے دنیا میں لوگوں کے ساتھ معاملات کو بہتر نہیں رکھا اورآخری عمر میں عبادات پر توجہ دے کر اِس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی ➖تو روزِ قیامت ایسا معاملہ غیر درست ہوگا۔ ➖یہ بہت غلط سوچ ہے۔ ➖ملازمین و مزدور کے حقوق تلف کر کے، رشتہ داروں کے حق مار کے عمرہ اور حج ادا کرنا کیا معنی رکھتا ➖؟  زبردستی لوگوں سے مسجد اور مدرسہ کے نام پر چندہ وصول کرنا اور محلہ میں ہیکڑی دکھانا ➖کون سی عبادت کا حصہ ہے ➖؟ مسجد اور مدرسہ کے نام پر کئے گئے چندہ کی رقم سے اپنی پروپرٹی بنانا یہ کون سی عبادت کا حصہ ہے ➖؟  

اِس وقت سوشل میڈیا پر جینوسائڈ کی خبریں خوب وائرل ہو رہی ہیں۔ حالاں کہ صدیوں پہلے ہمارا ذہنی جینو سائڈ کیا جا چکا ہے ➖اور اب جسمانی جینوسائڈ ہو رہا ہے۔ ➖کیوں کہ ذہنی جینوسائڈ کے نتیجہ میں ہی ہمارے اندر یہ تبدیلی آئی ہے کہ معاملات کی خرابی کو عبادات سے بدلنے کا طریقہ بتا دیا گیا ہے۔ اور فرائض و واجبات اور معاملات کو درست طریقے سے نہیں سمجھایا گیا۔ اب جسمانی جینوسائڈ کی کئی مثالیں سامنے آ چکی ہیں۔ برسوں سے ہم سنتے آ رہے ہیں کہ اپنے لوگوں کے ساتھ رہو، اپنے علاقے میں رہو۔ بہت کم لوگ ایسے ملے جنہوں نے یہ کہا ہو کہ اپنے سطح کے لوگوں کے ساتھ رہو یا انسانوں کے ساتھ رہنا سیکھو چاہے وہ مذہب کے اعتبار سے خواہ کوئی ہو۔ جہاں انسانیت کا خیال رکھا جاتا ہو، جہاں انسانیت کے طور طریقے کو برتا جاتا ہو، وہاں ترقی ہوگی۔ ➖لیکن دیکھا یہ جا رہا ہے کہ زیادہ تر لوگوں نے ’’انسانیت‘‘ میں سے  سین ہٹا کر کے ’’انانیت‘‘ کا درس دیا۔ نتیجہ کئی جگہوں اور علاقوں میں سامنے آ چکا ہے۔

ساٹھ برس سے کم عمر کے پڑھے لکھے بیشتر لوگ بھی اکثر موضوعات کے تحت سنجیدہ قطعی نہیں ہیں۔ وہ کسی نہ کسی طریقے سے اپنی بات پر بضد رہتے ہیں۔ ➖ اگر ابھی اُن سے سماجی معاملات کے بارے میں گفتگو کی جائے تو آمنے سامنے جوتم پیزار کی نوبت آ جائے ، لیکن گروپ میں دشنام طرازی تو ہو ہی سکتی ہے۔ 

میں نے کئی بار سوال کیا کہ ’’مسلم قوم کی سب سے بڑی دقت کیا ہے‘‘ کوئی معقول جواب اب تک نہیں مل سکا۔

جب کہ گروپ کی سرگرمیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ’’مسلم قوم ذہنی پسماندگی کی شکار ہے‘‘  اور اُس میں سب سے پہلے نمبر پر یہ سوچ ہے کہ ’’کیا کہیں گے لوگ‘‘  خواہ آپ طرزِ زندگی کے بارے میں مشورہ کریں، تعلیم کے میدان کے بارے میں گفتگو کریں، کیرئیر و روزگار کے بارے میں گفتگو کریں۔ بیٹا یا بیٹی کے نکاح کامعاملہ ہو یا جنازہ و میّت اور میراث کا معاملہ سامنے آ جائے، ہر جگہ شریعت کی کھلے عام دھجّیاں اُڑائی جاتی ہیں، اور رسمی طور طریقے پر ہی عمل کیا جاتا ہے۔ 

عذر 

یہ ہمارے یہاں نہیں ہوتا۔ 

یہ سب ہم لوگ نہیں مانتے۔ 

یہ طریقہ اُس طرف کا ہے۔ 

وہ زمانہ اور تھا۔ 

ایسا کہاں کوئی کرتا ہے۔ 

باپ دادا کے زمانے سے چلتا آ رہا ہے۔ 

ہمارے باپ دادا نے ایسا کبھی نہیں کیا۔

جب اجتماعی کام یا معاملہ کی بات آئے توعذر کیسے ہوتے ہیں؟

ہماری کہاں اتنی اوقات ہے۔

ہم اتنا نہیں دے سکتے۔

ہم اِس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے۔

اور بھی کئی قسم کے جملے آپ نے سنے ہوں گے، جس میں زیادہ تر منفی رویّہ ہوتا ہے، اُسے ہم یہاں لکھ نہیں سکتے۔ آپ کے ذہن میں جتنا بھی آ جائے، وہ کم ہی ہوگا۔ وہ سارے منفی خیالات و جملے ہماری قوم میں بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں۔ یہ سکھانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔

آخر یہ ڈبل اسٹینڈرڈ کیوں؟ کیا مسلم قوم مالی اعتبار سے کمزور ہے؟ یا تعلیمی اعتبار سے کمزور ہے؟ یہ دونوں عذر بیان کرکے کچھ لوگ اپنی روزمرہ کا خرچہ نکالتے رہتے ہیں، وہ بھی اُن لوگوں سے جو جذباتی بن کے اللہ کی راہ میں مال خرچ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

مال کی کوئی کمی نہیں ہے، ورنہ جس طرح شادیوں میں وقت اور مال کا ضیاع ہوتا ہے۔  وہ بھی آپ کی نظروں کے سامنے ہے۔

کیسے کہا جا سکتا ہے کہ یہ قوم مالی طور پر غریب ہے۔ 

یہ تو ذہنی طور پر غریب ہے۔

سنجیدہ موضوع پر گفتگو کرنی ہو تو  

’’وقت نہیں ہے۔ ’’ابھی ذرا مصروفیت ہے، بعد میں بات کیجیے گا‘‘۔ 

معاملات کی خرابی کو عبادات سےپُر کرنے والی قوم، لات کھائے گی، گالیاں سنے گی۔ اور کیا اُس کا مقدر ہو سکتا ہے۔؟ ➖جائیے،  ➖معاشرے میں گھومیے، ➖دیکھیے کہ کس طرح مساجد اور مدارس پر جاہلوں اور جاہل حاجیوں کا قبضہ ہے۔ کام نہ کرنے کے کتنے بہانے اُن کے پاس ہے۔

ایک رَٹا لگایا ہوا ہے، آپ مجھے مالی تعاون کیجیے، ہمیں آپ کے مشورے کی ضرورت نہیں ہے۔

کیا کوئی بتائے گا کہ سالانہ کتنے علماء اور فضلاء اور مفتیانِ کرام مدارس سے نکلتے ہیں اور اُس میں کتنے فیصد معاشرے کے لئے کارگر اور مفید ثابت ہوتے ہیں۔ اُن پر کئے جانے والے خرچ اور نکلنے والے نتائج پر غور کریں، موازنہ کریں کہ کس طرح زکوٰۃ و صدقات کو غریبوں اور یتیموں کے نام پر اڑائے جاتے ہیں۔

دورِ موجودہ میں مسجد بنانا اور حج کرنا ہی ایک نیک کام رہ گیا ہے۔ مسجد کے نام پر چندہ کیجیے، ہر ایک دو سال میں نئی کمیٹی بدلیے، خزانچی بنئے، اپنا کام ہو جائے، نکل لیجیے۔ 

روزانہ تین گھنٹے استعمال کئے جانے والی مساجدکی عمارت پر غور کیجیے۔ کہ کس طرح اسراف کیا جاتا ہے۔ 

تعلیمی سرگرمی اگر کوئی شروع کرنا چاہے تو روکا جاتا ہے۔

غربت اتنی کہ دال روٹی بھی نہیں کھا سکتے۔

اور مال اتنا کہ پیر کو بکرا دے آتے ہیں۔

کیا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ یہ قوم ذہنی پسماندگی کی شکار نہیں ہے؟

مال کی نمائش کا ایک طریقہ اور رائج ہونے لگا ہے۔ وہ ہے بے وقت عقیقہ کا رواج۔ بچے کی ولادت سے پہلے اور بعد کئی قسم کے مفروضے تیار کر لئے جاتے ہیں۔ مثلاً زچہ کمزور ہے، ابھی تو بہت روپیہ خرچ ہوگیا۔ بہت تنگی آ گئی ہے۔ 

’’بعد میں دھوم دھام سے کریں گے۔ ‘‘

حالاں کہ عقیقہ ساتویں دن کرنا سنت ہے۔ باقی جو بھی ہے وہ ڈھکوسلا یا رواج ہے، اسے آپ اپنی من مرضی بھی کہہ سکتے ہیں۔ یا مولویوں کی شکم پروری۔ ➖بہت سے معاملات اور عبادات میں ہمارے طریقے اصحاب السبت کی طرح ہے۔ ہمیں خوف آتا ہے ہم یقیناً اصحاب السبت کے طریقے پر چلتے ہوئے اللہ کی پکڑ میں آئیں گے، یا آئے ہوئے ہیں۔ کیوں کہ پہلے کی قوموں کی طرح اُمّت محمدیہ(ﷺ) پر ناگہانی آفت تو آئے گی نہیں، لیکن آزمائش تو آتی رہے گی۔ جس کا حل ہمیں سنت کے مطابق ہی کرنا پڑے گا۔

حدیث شریف میں ہے کہ

کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَةِ  فَاَبَوَاہُ  یُہَوِّدَانِهٖ اَوْ یُنَصِّرَانِهٖ اَو یُمَجِّسَانِهٖ (بخاری ومسلم)

ہر بچہ فطرتِ پر پیدا ہوتا ہے مگر اس کے والدین اسے یہودی و عیسائی اور مجوسی بنا دیتے ہیں۔

اب ہم اپنی اولاد کو کیا بنا رہے ہیں، اُس پر ہمیں خود ہی غور کرنا ہوگا۔ دوسروں کو ہماری اولاد کے بننے یا بگڑنے سے کوئی زیادہ واسطہ تو نہیں ہے۔ ہاں ہماری اولاد کے بگڑنے سے معاشرے میں ہمارے ساتھ ساتھ ہماری قوم کو بھی بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے ’’ایک گندی مچھلی پورے تالاب کو گندہ کر دیتی ہے‘‘ حالاں کہ عقل مند انسان اپنے آپ کو گندگیوں سے بچاتے ہوئے گزر جاتا ہے۔ تقویٰ کا یہی اصول ہے اور متقی کی یہی پہچان ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے۔ آمین


فیروزہاشمی،ہیلتھ کنسلٹنٹ، نوئیڈا

10th Oct. 2023


Wednesday, September 6, 2023

⚽⚽⚽مسجد تو بنا دی شب بھر میں⚽⚽⚽


آج واٹس ایپ، فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ سے تبلیغ سلسلہ زوروں پر ہے۔ ایسا ہی ایک گروپ ’’اہلِ علم و قلم‘‘ کا لنک میرے ایک بزرگ کے معرفت موصول ہوا۔ گروپ کے تعارف سے لگا کہ ہمیں اِس میں شامل ہو جانا چاہیے، اور میں شامل ہو گیا۔ ابھی چوبیس گھنٹے ہی گزرے تھے کہ اِس دوران پتا چلا کہ بڑے بڑے اہلِ علم و ہنر اس گروپ میں شامل ہیں۔ جو کہ کسی گروپ کی ترقی اور بہتری کےلئے ایک مثبت پہلو ہوتا ہے۔

لیکن جس طرح کام کا مثبت یا منفی پہلو ہوتا ہے، اسی طرح یہاں بھی دونوں پہلو موجود ہیں۔ مثبت پہلو کے بہت سی خصوصیات عمومی طور پر لوگ بیان کر دیتے ہیں اور اکثر لوگ ایک دوسرے کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے مل جائیں گے۔ لیکن ایسے معاملات میں منفی پہلو کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے جو کہ کسی بھی اچھے اعمال کو فروغ دینے میں مضر اور نقصاندہ ثابت ہوتا ہے۔ لہٰذا یہاں منفی پہلو پر بھی نظر ڈال لینا مناسب معلوم پڑتا ہے۔

جو بھی ہمارے فیس بک پر دوست بنے یا پھر تعارف کے بعد واٹس ایپ پر دوست ہوئے، اُن نظریات و خیالات بہت ہی محدود ثابت ہوئے۔ جسے ہم برسوں سے محسوس کر رہے ہیں اور برت رہے ہیں۔ اگر اُن سے ملاقات کے لئے کہا جائے یا فون پر گفتگو کے لئے وقت مانگا جائے تو نہ ہی اُنہیں ملنے کے لئے وقت ہے اور نہ فون پر گفتگو کے لئے وقت ہے۔ تو اِس بنا پر ہم نے نتیجہ یہ اخذ کیا کہ یہ وہ اہلِ علم ہیں جو یا تو ریٹائرڈ پرسن ہیں، جنہیں اپنا وقت گزاری کے لئے کچھ تو کرنا ہے،  لہٰذا اپنی قابلیت تھوپی جائے۔ کیوں کہ اب یہ گروپ میں بیٹھ کر تاش، لوڈو یا کیرم تو کھیل نہیں سکتے!!!

آپ اپنے علاقے میں بھی دیکھ رہے ہوں گے کہ کچھ لوگوں کو مسجد یا مدرسہ بنانے کا دُھن سوار ہو جاتا ہے۔ کوئی قبرستان کا ٹھیکیدار بن جاتا ہے۔ کوئی خیراتی ادارہ قائم کر لیتا ہے۔ اس طرح کے کاموں سے عمومی نتیجہ آٹے میں نمک کے برابر آتا ہے۔ لاکھوں روپے خرچ کرکے سینکڑوں کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ کیوں کہ ’’خلوص‘‘ ناپید ہوتا ہے۔

ہمارے محلّے میں بھی مکمل ایمان والے لوگ آ گئے ہیں، جن کے اندر انسانی ہمدردی تو نام کی نہیں ہے لیکن مسجد بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ وہ گروہ ہے جن کا طریقہ عائلی اصول میں تو کچھ بھی غلط کریں، چلے گا، بلکہ درست ہے، ایسا ہی سب کر رہے ہیں  اور شاید اُن کو یہ امید ہے کہ مسجد بنالیں گے یا نمازیں ادا کر لیں گے تو وہ گناہوں سے پاک ہو جائیں گے۔ انہیں عبادات اور معاملات کا فرق نہیں سمجھ آیا اور نہ ہی کسی خطیب نے جمعہ کے خطبہ میں ہی سمجھایا ہو، اصل بات یہ بھی ہے کہ ’’وہ سمجھنا ہی نہیں چاہتے‘‘ ۔ 

دس بارہ سال سے مسجد کے لئے یا اجتماعیت سے بیٹھنے کی کوشش کا سلسلہ جاری ہے، لیکن اجتماعی طور پر ایک مسجد بننے کے بعد یہ بے شرمی کی حد سامنے آتی ہے کہ ’’گھوشت کرو کہ یہ مسجد کس کی ہے‘‘ یعنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بن کے تیار ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ بات چندہ کے لین دین پر آتی ہے، اور مال کے زعم میں کہا جاتا ہے کہ ’’تو نے کتنا چندہ دیا ہے؟  اور اگر کوئی کہہ دے کہ اتنا۔۔۔۔۔ تو کہا گیا کہ یہ پکڑ اپنے پیسے اور اِس مسجد میں مت آئیو‘‘  ۔ ۔ یہ میری مسجد ہے۔ ۔ ۔ ’’بے غیرتی کی انتہا‘‘

یہ سوچ کہاں سے آئی؟؟؟

ایک بڑی بے بنیادی سوچ بھی ہمارے طبقہ میں رائج ہے کہ میاں ’’اپنے علاقے میں رہو‘‘۔ یہ کیا ہے؟ آج تک مجھے سمجھ میں نہیں آیا۔ کیوں کہ مشاہدہ کچھ اور ہی ہو رہا ہے۔ ہم جسے اپنا علاقہ کہتے ہیں، کیا وہاں علاقائی عصبیت نہیں پائی جاتی؟ کیا وہاں مسلکی عصبیت نہیں پائی جاتی؟ کیا وہاں ذات برادری پر مبنی عصبیت نہیں پائی جاتی؟ کیا وہاں تیری مسجد اور میری مسجد والی ذہنیت نہیں پائی جاتی؟ کیا وہاں ہمارے لوگوں کے قبرستان اور دوسرے لوگوں کے قبرستان والی بات نہیں پائی جاتی؟ کیا وہاں ’’ہم لوگ‘‘ اور ’’وہ لوگ‘‘ والی سوچ نہیں پائی جاتی ؟    اگر پائی جاتی ہے تو یہ سوچ کہاں سے آئی؟؟؟ کیا ہمارے دین میں ایسی سوچ کی گنجائش ہے؟؟؟

اور تازہ واقعہ کی مثال لیجیے۔ آپ کے اکثریتی علاقہ میں جو ہوا، آپ کیا کر پائے؟ اور ابھی تک کیا کر پانے کی حیثیت میں ہیں؟ جب کہ تین ہفتہ سے زیادہ اس واقعہ کو ہو چکا۔ آئے دن جو واقعات اقلیتی اور ذات برادری کی عصبیت کی بنیاد پر پیش آ رہے ہیں اور جو غیر انسانی حرکتیں ہو رہی ہیں، اس سے آپ کس طرح نبردآزما ہونے کی حیثیت میں ہیں؟

رفاہی کام کرنے کے لئے پوری گنجائش ہے۔ لیکن اس کا اصول ہے۔ بغیر اصول کو عمل میں لائے اِس طرح کے کاموں کی بنیاد ڈالنا ریت کا محل تعمیر کرنے کے مترادف ہے۔ اگر واقعی انسانیت سے ہمدردی ہے تو انفرادی طور پر کیجیے۔ اور اگر کوئی بڑا کام ارادہ کر لیا ہے تو اِس طرح کے رفاہی کام کے لئے  پہلے سوسائٹی بنائیں، رجسٹرڈ کرائیں پھر کام کریں۔ جلدی کامیابی ملے گی اور پائیداری بھی۔ ویسے تیرہ  سال کے بعد اب کچھ لوگوں کو سمجھ آیا ہے تو سوسائٹی کی بھاگ دوڑ میں لگے ہیں۔ لیکن ہما ہمی ابھی بھی باقی ہے۔ علاقائی عصبیت، ذاتی اونچ نیچ ذہنوں گھر کر چکا ہے۔ اِس طرح کی اخلاقی بیماری اور سوچ کو ختم کیے بغیر مسجد تعمیر کرنا اور اللہ کی رضا حاصل کرنا کیا ممکن ہو پائے گا؟؟؟

پتا نہیں کس طرح لوگوں نے سمجھ رکھا ہے کہ سماجی، معاشرتی معاملات کی غلطی کو دھونے کے لئے نماز، روزہ، عمرہ وغیرہ کام آ جائے گا، یا اُس کا بدل بن جائے گا۔ ہم نے کئی ایسے اداروں میں کام کیا ہے جن کے مالکان اپنے ورکروں کے ساتھ کی گئی زیادتی کے بدلے حج کرکے اپنے کو پاک سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اور کئی تو اتنے بے ایمان ہیں کہ پولیس ڈھونڈ تی ہے تو یہ اجتماع میں چلے جاتے ہیںاور سی بی آئی ڈھونڈتی ہے تو عمرہ کے لئے نکل جاتے ہیں۔ یہاں تک اُن کا معاملہ طے رہتا ہے کہ ’’فلائی‘‘ کے بعد ہی سی بی آئی اُن کے گھر پہنچتی ہے کہ وہ گھر پر نہ ملیں۔

لہٰذا بہتر یہ ہوگا کہ گروپ کو موضوع کے لحاظ سے مدلل اور معلوماتی مضامین ہی پوسٹ کئے جائیں، خواہ وہ خود کے لکھے ہوئے ہوں یا کسی دیگر کے۔ اگر کسی کو حوالہ کی ضرورت ہو تو اُسے حوالہ فراہم کیا جائے۔ جو باتیں عمومی نا ہوں اُسے گروپ میں نہ لایا جائے، کیوں کہ بلاوجہ طول فضول باتیں ہوتی ہیں جس سے مطالعہ کے ذوق میں کمی آتی ہے یا پھر ہر ایک کو دیکھنے کے لئے وقت درکار ہوتا ہے۔ حوالہ جات وغیرہ تعارف کے بعد انفرادی طور پر فراہم کیا جاسکتا ہے۔

۔۔۔۔

فیروزہاشمی، نوئیڈا، اترپردیش

Friday, July 21, 2023

🌹🌹🌹’’اماموں کی قدر کریں‘‘🌹🌹🌹



ابھی گزشتہ چند برسوں میں مختلف طرق سے ’’اماموں کی قدر کریں‘‘ یا ’’علماء کرام کی قدر کریں‘‘ جیسے عنوانات سے مختلف لوگوں کی باتیں سامنے آ رہی ہیں۔ اور اکثر علماء کرام، حافظ قرآن یا امام و مؤذن اس بات کا رونا رو رہے ہیں۔ جس میں اکثر تنخواہ یا معاوضہ کا ذکر کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ائمہ کرام اور علماء کرام کو خاطر خواہ اجرت، معاوضہ یا وظیفہ نہیں دیا جاتا۔

اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر ہمیں پورا یقین اور بھروسہ ہے۔ کئی ویب سائٹ اور فتاویٰ پورٹل پر اماموں کے حقوق سے متعلق فتویٰ اور احادیث کا حوالہ موجود ہے۔ مثلاً

’’ امامِ مسجد کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟

مسجد کے امام اور علماء کرام کے ہم پر کیا حقوق ہیں اور انکے گھر والوں کے ہمارے گھر والوں پر کیا حقوق ہیں؟‘‘

جواب میں بتایا یہ گیا کہ 

  اسلام اور مسلم معاشرے میں امامت ایک معزز منصب رہا ہے اوراس پر فائز رہنے والے لوگوں کوعام و خاص ہر طبقے میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے، کیونکہ امام ملازم نہیں، بلکہ قوم کا قائد ورہبر ہے، ائمہ کرام کا احترام اور ان کی خبر گیری کرنا تمام مسلمانوں کی انتہائی اہم ذمہ داری ہے۔

امامت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ایک حدیث  نقل کی ہے کہ

"اَنّ رَجُلًا اَتَی النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فَقَالَ مُرْنِیْ بِعَمَلٍ اَعْمَلُہُ، قَالَ  کُنْ اِمَامَ قَوْمِکَ، قَالَ  فَاِنْ لَمْ اَقْدِرْ، قَالَ کُنْ مِنْ مُؤذِنِھِمْ"۔

ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی  خدمت میں حاضر ہوئے اور انھوں نے دریافت کیا کہ اللہ کے رسول! مجھے کوئی کام بتائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  اپنی قوم کے امام بن جاؤ تو انھوں نے کہا، اگر یہ ممکن نہ ہو تو؟  توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”پھرموٴذن بن جاوٴ“۔

(شرح عمدة الفقہ ج3، ص139، ط  شبکة مشکاة الاسلامیہ )

اس حدیثِ پاک سے واضح طور پر یہ معلوم ہوتاہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں امامت اور مؤذنی ایک اعلیٰ اور شرف والاعمل تھا، اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو اس کی تلقین فرمائی، اس لئے اہل محلہ کی ذمہ داری ہے کہ امام کی ضروریات کا خیال رکھیں، اُسے اتنی تنخواہ دی جائے، جو اُس کی ضروریات کے لئے کافی ہو اور اُس علاقے کے متوسط فرد کی تنخواہ کے برابر ہو اور اس کی غلطیوں کے پیچھے نہ پڑیں، کیونکہ وہ بھی ہماری طرح انسان ہیں، فرشتے نہیں ہے۔

’’افسوس کی بات ہے کہ آج ائمہ کرام اور علماء کرام کی ناقدری ایک عام وبا کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے، ایک شخص کو امام بھی بنایا جارہا ہے اور اس کی ناقدری بھی ہو رہی، امام کی عزت وعظمت ایک مسلمان کا وطیرہ ہونا چاہیے۔‘‘

اس آخری جملہ سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ جس حدیث کے حوالہ سے علماء کرام کی قدر ثابت ہوتی ہے،  اُسی کی تشریح میں افسوس کا اظہارکیا جا رہا ہے۔ آخر جس صحابی کا حدیث میں ذکر کیا گیا؛ وہ یقیناً پڑھے لکھے اور ہوشیار بھی ہوں گے۔ سماجی ضرورتوں کو شرعی اعتبار سے سمجھتے ہوں گے۔

(پڑھے لکھے سے مراد آج کے کتابی اور آٹھ دس برس مدرسے میں گزارنے والے مولوی اور عالم قطعی نہیں ہیں۔ یہ صحابی وہ ہیں جنہیں معاشرہ کی ضروریات کا علم بھی ہے اور وہ دور اندیش بھی ہیں)

اب آگے کی حدیث ملاحظہ فرمائیں

نبی اکرمﷺ کا فرمان ہے کہ "اکرموا حملة القرآن فمن اکرمھم فقد اکرمنی"

ترجمہ حاملین قرآن (حفاظ و علماء کرام ) کا اکرام کرو، جس نے ان کا اکرام کیا، اس نے میرا اکرام کیا۔

(الجامع الصغیر للسیوطی ج 1، ص145)

ایک اور حدیث میں ہے کہ "حامل القرآن رایة الاسلام فمن اکرمہ فقد اکرم اللہ و من اھانہ فعلیہ لعنة اللہ"

ترجمہ حاملین قرآن اسلام کا جھنڈا اٹھانے والے ہیں، جس نے ان کی تعظیم کی، اس نے اللہ کی تعظیم کی اور جس نے ان کی تذلیل کی،اس پر اللہ تعالی کی لعنت ہے۔

(کنزالعمال ج 3، ص139، ط موسسة الرسالة، بیروت)

مذکورہ احکام کے علاوہ بھی مختلف احادیث میں امامت صلوٰۃ کرنے والے اور مؤذن کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے اور ہمیں بھی یقین ہے کہ یہ قابل قدر عمل ہے۔

لیکن میرا سوال یہاں پر یہ ہے کہ ’’علماء کرام کو یہ درخواست کیوں کرنی پڑ رہی ہے؟‘‘ یہاں تک کہ فتویٰ کے ایک حصہ (پیرا گراف) میں عوام کے رویّہ پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔

مذکورہ احادیث اور دیگر علماء کرام کے خیالات کا مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ امام و مؤذن کے لئے متقی، صاحب ورع ہونا ضروری ہے۔ یہاں تک وہ لوگ جو دینی ادارے چلاتے ہیں، یعنی مہتمم یا متولی ہیں؛ اُن کے اندر بھی مذکورہ صفات ہونا بہت ضروری  اور لازمی ہے۔

حضرت کعب الاحبار ؓسے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے پوچھا ! مجھے بتائیے تقویٰ کیا ہوتا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ کیا آپ کبھی خار دار دشوار راستے سے گزرے ہیں؟ آپ نے فرمایا !ہاں تو حضرت کعب الاحبار ؓ نے پوچھا، بتاؤ خاردار جھاڑیوں والے راستے سے گزرتے ہوئے تمہارا طریقہ کار کیا ہوتا ہے ؟آپ نے فرمایا ،ڈرتا ہوں۔ دامن بچا کر چلتا ہوں یعنی نہایت احتیاط سے دامن سمیٹ سمیٹ کر قدم بچا بچا کر گزر تا ہوں، اس خدشے کے پیش نظر کہیں دامن چاک نہ ہو جائے ، کہیں پاؤں زخمی نہ ہو جائے ،جسم چھلنی نہ ہو جائے۔حضرت کعب الاحبارؓ نے فرمایا، بس یہی تقویٰ ہے کہ گویا یہ دنیا ایک خاردار جنگل ہے، دنیاوی لذات اور خواہشات نفسانی اس کی خاردار جھاڑیاں ہیں جو ان خواہشات و لذات کے پیچھے چلا گیا ،اس نے اپنا دامن تار تار کر لیا اور جو بچ گیا ،وہ صاحب تقویٰ ہوا۔

تقویٰ کا اصل مرکز دل ہے، البتہ اس کا اظہار مختلف اعمال کے ذریعے ہوتا ہے۔ جیساکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم)نے دل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تقویٰ یہاں ہے۔ (صحیح مسلم)غرض تقویٰ اصل میں اللہ تعالیٰ سے خوف ورجاء کے ساتھ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے طریقے کے مطابق ممنوعات سے بچنے اور اوامر پر عمل کرنے کا نام ہے۔ 

حضرت علی ؓ کا ارشاد گرامی ہے معصیت پر اصرار نہ کرنا اور اپنی عبادت پر ناز و اعتماد نہ کرنا تقویٰ ہے۔‘‘ حضرت ابو دردا ءؓ نے فرمایا  ’’تقویٰ ہر قسم کی بھلائی کا جامع ہے یہ وہ چیز ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اولین و آخرین کو حکم دیا ہے۔‘‘

اب جو علماء کرام بھی علماء کی ضرورت کا خیال رکھنے سے متعلق بات کرتے ہیں وہ عموماً مالی تعاون کی درخواست لگتی ہے۔ یہ ہونا بھی چاہیے کہ اگر عالم با عمل، صاحبِ ورع و تقویٰ اس طرح کی خدمات انجام دے رہا ہے تو اُس کی ضرورتیں پوری کرنا عوام کی ذمہ داری ہے۔ اور جہاں تک میںنے دیکھا ہے کہ عالم با عمل حضرات کو اس طرح کی درخواست کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔

ہاں وہ لوگ ضرور اِس طرح کی درخواستیں کرتے ہیں جنہوں نے اپنے آپ ضرورت سے زیادہ ہوشیار، قابل، اہلِ علم اور صاحب ورع وغیرہ سمجھ لیا ہے۔ اُن میں اکثر وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے چند ابتدائی کتابیں پڑھ کے یا چند علماء کرام کی صحبت میں رہ کر کچھ سیکھ لیا ہے اور اپنے لئے گاؤں یا محلہ میں مسجد یا مدرسہ پر قابض ہوئے بیٹھے ہیں، تو ایسے لوگوں کو شکایت رہے گی۔ اور ہمیشہ رہے گی۔ میرے نزدیک ایسے لوگ علماء سو میں شمار ہوتے ہیں۔ یعنی شکم پرور مولوی۔ آپ بھی جائیے سروے کیجیے، دیکھیے، یہ جو منہ میں غلاظت بھرنے میں مال خرچ کرتے ہیں؛ وہ کہاں سے آتا ہے؟ اور بیڑی، سگریٹ، تمباکو، گٹکھا کے عادی کیوں اور کیسے بنے؟  آج سے پندرہ سال قبل اپنے ایک ساتھی کے ساتھ کسی کام سے دہلی جانا ہوا تو انہوں نے کہا کہ میرا ایک ساتھی یہاں رہتا چلیے، ذرا اُن سے بھی ملاقات کر لیتے ہیں۔ ہم اُن کے ساتھ چلے گئے؛ معلوم ہوا کہ وہ بہت ’’جگاڑو‘‘ مولوی ہیں۔ دہلی کی کچی کالونیوں میں کئی مدرسہ کے مہتمم ہیں۔ باقی باتیں وہ خود کرتے رہے۔ اور چالیس منٹ کے عرصہ میں انہوں نے تقریباً پانچ سگریٹ پھونک دیا۔ مزید کیا کیا اخلاقی برائیاں اُن میں رہی ہوں گی؛ مجھے نہیں پتا۔

ہمارے علاقے میں کئی مسجدیں قائم ہو چکی ہیں؛ اور اکثر میں یہی دو ٹکے کے شکم پرور مولویوں نے قبضہ جما رکھا ہے۔ کیوں کے علاقہ کے عوام کا مزاج اُن کے مزاج سے ملتا جلتا ہے۔ نہ ہماری قوم کو حق کی رہنمائی کرنے والا مل رہا؛ یا دوسری صورت میں حق کی رہنمائی کرنے والے یا بولنے والے کی ایسی جگہوں میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ لہٰذا وہ قابل اور حق پرست مولوی اپنی عزت بچانے کے خاطر دیگر علاقوں اور میدانِ کار کا رُ خ کرتے ہیں۔ چوں کہ ایسی رہنمائی احادیث میں بھی موجود ہیں۔ تو وہ قابل اور اہل مولوی اور عالم ایسے علاقوں میں اپنی خدمات دے کر لوگوں کے طعنے کیوں سنیں؟

جب معاشرے کی بگاڑ پر بحث چھڑتی ہے تو ایک رائے یہ بھی آتی ہے کہ ’’کیا کیا جائے؟ یہاں تو پورے کا پورا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ بس جیسے لوگ چل رہے ویسے ہی چلئے‘‘۔  یہ خیالات اُن کے ہیں جو سماج میں کوئی حیثیت بھی رکھتے ہیں۔ لیکن چوں کہ اُن کی باتوں یا اُن کی کارکردگی کو اکثر لوگ ناکار دیتے ہیں، اِس لئے وہ محلہ میں ہونے کے باوجود محلہ کے لئے نہ ہونے کی حیثیت میں ہوتے ہیں۔

مذکورہ بگاڑ میں جو سب سے اہم پہلو سامنے آتا ہے وہ ہے اناپرستی (egoism)۔  اس کا شکار ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ بھی ہے اور اَن پڑھ طبقہ بھی۔ اور جو جاہل ہیں وہ تو سماج کے لئے ناسور بن چکے ہیں۔ (جاہل سے مراد ابوجہل کی خصلت والے) یہ ابوجہل تو چلا گیا لیکن اُس کی حرکتیں اُمت مسلمہ کہی والی جماعت کے کچھ لوگوں میں پائی جاتی ہے اور یہ جہالت نسل در نسل جاری ہیں۔ اور نتیجہ بھی سامنے ہے۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ کا ذکر کرنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے؛ جو میرے سامنے ہو رہا ہے۔ اور ہم خود اتنے نا اہل ہو چکے ہیں کہ اِس دقت یا پریشانی کو دور کرنے میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں۔

قریباً پندرہ برس کے بعد مجھے اپنے آبائی گاؤں جانے کا اتفاق ہوا۔ چوبیس گھنٹے میں دیکھا کہ جس طرح دوسرے گاؤں اور شہروں میں گھروں اور سوچ کی تبدیلی آئی ہے وہی یہاں بھی ہوا۔ یعنی لوگوں کے کچے مکانات پکے میں تبدیل ہو گئے۔ سوچنے کا معیار ’’اپنا کام بنتا بھاڑ میں جائے جنتا‘‘ ہو چکا ہے۔ مسجد میں نمازیوں کی تعداد ویسے ہی ایک صف والی۔ ہاں بچوں کی تعداد کم ہو گئی ہے۔ ہمارے بچپنے میں بچوں کی تعداد آدھا سے زیادہ صف کی ہوا کرتی تھی۔ اس واقعہ کا سرا ۱۹۸۲ء کے اُس واقعہ سے جوڑنے پر پتا چلتا ہے کہ کوئی خاص بہتری گزشتہ چالیس برس میں دیکھنے کو نہیں ملا۔ جب میں عربی کی دوسری کلاس میں پڑھا کرتا تھا۔ اور اُسی گاؤں کے دو بچے اور حافظہ میں پڑھ رہے تھے۔ ایک حافظ قرآن ہونے کے بعد سالانہ تراویح اپنے گاؤں کے علاوہ دیگر گاؤں میں بھی سناتا رہا اور روزی کے بندوبست کے لئے اُس نے امبروڈی کا کام کرنے لگا۔ دوسر ا حافظ بننے کے بعد عربی کی جماعتیں پڑھی، عمدہ عالم، خوش الحان حافظ و قاری بنا۔ گاؤں کی مسجد میں پنج گانہ نماز کے علاوہ خطبہ جمعہ، عیدین وغیرہ کی بھی ذمہ داری نبھانے لگا۔ گاؤں کے لوگوں میں بگاڑ کا ذہن اُس وقت بنا جب کچھ لوگوں کے دماغ میں مسلک کا دیمک داخل ہو گیا اور وہاں بھی مسلکی بگاڑ شروع ہو گیا۔ احکامِ خداوندی اور طریقۂ محمدی (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اللہ اور رسول کے نام پر پیروں سے روندا جانے لگا۔ اُن خرافات کا اُس نازک ذہن عالم و حافظ اکیلا مقابلہ کرتا رہا یہاں تک کہ سنت کی پامالی اُس سے برداشت نہیں ہوسکا تو وہ ذہنی طور پر مفلوج ہو گیا۔ بیوی بچوں کو چھوڑکر ملک عدم چلا گیا۔ یوں سنت کی پامالی کے ساتھ ساتھ ایک دین پرور گھر بھی برباد ہو گیا۔اور ہمارا دینی سرمایہ بھی۔

اب۱۹۸۲ء  کا وہ واقعہ بھی سنئے کہ ہمارے بزرگوں نے کس خواہش کا اظہار کیا تھا۔ دو بچوں سے قرأت اور مجھ سے تقریر سننے کے بعد ارادہ ظاہر کیا گیا کہ ہم بھی اپنے گاؤں میں مدرسہ کھولیں گے اور بچوں کو دین کی تعلیم دیں گے۔ باہر کے نادار طلبہ کو بھی رکھیں گے۔ میں نے سوال کیا کہ اُن کا خرچ کیسے پورا کیا جائے گا؟ کون اٹھائے گا اُن کا خرچ؟ جواب تھا ’’چندہ کریں گے‘‘ کون کرے گا؟ آپ ہی لوگ مدرس بن جانا اور آپ ہی لوگ چندہ کرنا۔ اپنے گاؤں سے یا باہر سے بھی؟  جیسے ہوتا آرہا ہے۔  

میں نے کہا ’’اگر اِس گاؤں کے لوگ اپنے بچوں کا خرچ نہیں اٹھائیں گے اور باہر سے لائے گئے بچوں کا خرچ نہیں اٹھائیں گے تو ہم ایسے منصوبے میں شامل نہیں ہوں گے۔‘‘ وہ دن اور آج کا دن؛ فرق کیا آیا؟ جتنے جاہل پہلے تھے، اس سے بھی زیادہ جاہل اب بن گئے۔ بچوں کو عصری تعلیم دلا کر پختہ مکانات بنا لینا کامیابی کی علامت سمجھ لی گئی۔ نماز پڑھانے کے لئے جاہل مولوی یا حافظ کو رکھ لیا گیا۔ نہ لوگوں کے رابطے آپس میں ہیں؛ کوئی کسی کی خیریت تک نہیں پوچھتا۔ مالدار افراد اپنے مال کے زعم میں چودھری بن رہے ہیں۔ شوگر اور ہارٹ پروبلم کی خیریت بتا رہے ہیں۔ اور اُس پر بڑے فخر سے ڈاکٹر کا ذکر کر رہے ہیں جس کی فیس پانچ ہزار روپے ایک وزٹ کی ہے۔ یہ اُن کی ذہنی کرامات ہے۔ جس کے ذریعہ وہ لوگوں پر دھونس جما رہے ہیں۔ نہ خود دیندار بنے نہ بچوں کو بنایا!!! جب آپ شوگر اور بی پی نپوا رہے ہیں تو کل آپ کے بچے بھی کچھ ایسا ہی کرنے والے ہیں۔ کماتے کماتے بیمار ہوتے ہیں اور صحت حاصل کرنے کے لئے کمائی ہوئی دولت لٹا رہے ہیں۔  یہ ’’ذہنی پستی کی عمدہ مثال ہے‘‘  یہ جاننے کے بعد کسی کو کچھ کام کی بات سمجھ میں آ جائے تو اپنی زندگی کو سنت کے مطابق ڈھال کر دنیا اور آخرت سنوار لینا۔ نہ سمجھ میں آئے تو جیسا چل رہا، وہ بہت اچھا چل رہا ہے۔ صبح سو کر اٹھو اور لگ جاؤ کام پر۔ وہ اِس لئے کہ بیٹی کی شادی کا خرچ اٹھانا۔ ایک دن کا بادشاہ خریدنا ہے۔ اور بیٹا کو پڑھا لکھا کر نوکر بنانا ہے۔ پھر اُسے بھی ایک دن کا بادشاہ بنا کر لڑکی والوں سے وصولنا ہے۔ بچی ہوئی دولت عمر کے آخری حصہ میں شوگر بی پی کنٹرول کرنے میں خرچ کرنا۔ کم پڑ جائے تو چندہ کرنا۔ 

یاد رہے چندہ کرنا تو ہمارا پیدائشی حق ہے۔ اسے مت گنوانا۔ اور آخر میں تو سب کا جیسا ہوا ویسا ہی ہمارا بھی ہوگا۔ منوں مٹی تلے دب جائیں گے۔ پھر وہی دو ٹکے کے مولوی آئیں گے اور ہماری بخشش کروانے کے لئے ہمارے بچوں کو ہماری نااہلی کا حوالہ دے کر اپنا پیٹ بھریں گے۔ اور چلے جائیں گے۔ اور یہ سال میں دو سے چار بار تو ہوتا رہے ہیں۔ اب آپ اِس پر بھی غور کر لیجیے کہ ہر گھر میں دو چار بار یہ ہوگا تو پورے گاؤں سے سال بھر اُن مولویوں کا پیٹ تو بھرتا رہے گا۔ 

ساتھیوں! بہت ہی ذہنی اضمحلال میں مبتلا ہو کر یہ واقعہ اور حالات رقم کر رہا ہوں۔ برائے کرم ’’دین‘‘ خود سیکھو اور اپنی اولاد کو بھی سکھاؤ۔ ورنہ نوکری اور چاپلوسی کرتے ہوئے اِس دنیا سے چلے جاؤ گے۔ نہ دنیا میں مزا لئے نہ آخرت میں مزا لے پاؤگے۔ مسلک کی تعلیم دے کر اپنا پیٹ بھرنے والے مولویوں سے بچو۔ یہ ہماری قوم کے لئے ناسور ہیں۔ یہ بائیکاٹ گینگ نہ دنیا میں آپ کو کسی کام کا رہنے دیں گے اور نہ ہی تمہاری آخرت سنورنے دیں گے۔ کیوں کہ آپ نے اپنے کو اُن کے رحم و کرم پر چھوڑا ہے۔ اپنے آپ کو رب کے حوالہ کرو۔

فیروزہاشمی، نوئیڈا، یو پی، بھارت

مضمون نگار، نئی شناخت کے ایڈیٹر، ہیلتھ اینڈ نیوٹریشنل کنسلٹنٹ ہیں۔

یکم فروری ۲۰۲۳ء


عید کی خریداری

 عید کی خریداری جوں جوں عید قریب ہوتی جارہی ہے لوگوں میں خریداری کا رُجحان بڑھتا جاتا ہے اور جلد بازی کی جاتی ہے، کیوں کہ ریڈی میڈ کپڑے بازا...