Friday, February 23, 2024

➗ ➗زندگی یوں ہی تمام ہوتی ہے ➗ ➗

 ➗ ➗زندگی یوں ہی تمام ہوتی ہے ➗ ➗


دورِ رواں میں اب تقریباً اکثریت کی زندگی کا مقصد کھانا پینا، سونا، گھومنا پھرنا،دنیا کی آسائشیں حاصل کرنا، استعمال کرنا اور مرجانا ہے۔جبکہ ایک مسلم قوم کی زندگی کا مقصد اور نصب العین اعلاء کلمۃ اللہ کے سوا کچھ نہیں ہونا چاہیے۔ جیسا کہ قرآن مجید کی اس آیت میں تعلیم دی گئی ہے۔

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا تَتَّخِذُوٓا آبَاءَكُمْ وَاِخْوَانَكُمْ اَوْلِيَآءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْاِيْمَانِ ۚ وَمَنْ يَّتَوَلَّـهُـمْ مِّنْكُمْ فَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الظَّالِمُوْنَ 

قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَاَبْنَآؤُكُمْ وَاِخْوَانُكُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيْـرَتُكُمْ وَاَمْوَالُ  ِۨ اقْتَـرَفْتُمُوْهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَـرْضَوْنَـهَآ اَحَبَّ اِلَيْكُمْ مِّنَ اللّـٰهِ وَرَسُوْلِـهٖ وَجِهَادٍ فِىْ سَبِيْلِـهٖ فَتَـرَبَّصُوْا حَتّـٰى يَاْتِىَ اللّـٰهُ بِاَمْرِهٖ ۗ وَاللّـٰهُ لَا يَـهْدِى الْقَوْمَ الْفَاسِقِيْنَ 

(سورہ توبہ آیت ۲۳، ۲۴)

اے ایمان والو! اپنے باپوں اور بھائیوں سے دوستی نہ رکھو اگر وہ ایمان پر کفر کو پسند کریں، اور تم میں سے جو ان سے دوستی رکھے گا سو وہی لوگ ظالم ہیں۔

کہہ دے اگر تمہارے باپ اور بیٹے اور بھائی اور بیویاں اور برادری اور مال جو تم نے کمائے ہیں اور سوداگری جس کے بند ہونے سے تم ڈرتے ہو اور مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیارے ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم بھیجے، اور اللہ نافرمانوں کو راستہ نہیں دکھاتا۔

مذکورہ آیت میں اسی بات کی تعلیم دی گئی ہےکہ ہمیں ایمان والوں کو اپنا دوست یا رفیق بنانا چاہیے۔ اور اگر ہمارے بھائی یا باپ اگر ایمان پر کفر کو ترجیح دیتے ہیں تو ایسے لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کرنا ضروری ہے۔

إِن يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهُ ۚ وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَيَتَّخِذَ مِنكُمْ شُهَدَاءَ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ

(سورہ آل عمران آیت  ۱۴۰)

اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچی تو وہ لوگ بھی ویسی ہی تکلیف پاچکے ہیں اور یہ دن ہیں جن میں ہم نے لوگوں کے لیے باریاں رکھی ہیں اور اس لیے کہ اللہ پہچان کرادے ایمان والوں کی اور تم میں سے کچھ لوگوں کو شہادت کا مرتبہ دے اور اللہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا ۔

یہ آیت غزوہ بدر اور احد کے تعلق سے نازل کی گئی جس میں اہل ایمان اور اہل کفر کا موازنہ کیا گیا ہے۔ جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ کیسے ہم (اللہ تعالیٰ) دن و رات اور زمانے کے الٹ پھیر کے ذریعہ یاد دہانی کراتے ہیں تاکہ لوگ اپنا محاسبہ کریں کہ کیا انہوں نےاپنے آپ کو واقعی روزِ قیامت اپنے وعدے میں پورے اترنے کے قابل بنا لیا ہے؟   اگر نہیں تو یہ موقع ہے، ایسے مواقع سے فائدہ اٹھائیں۔ نا کہ خوابِ خرگوش میں سوئے رہیں اور نیند کھلے تو دنیا میں شرمندگی اور لاچاری کا سامنا کرنا پڑے اور روزِ قیامت بھی شرمندگی کا سامنا ہو۔

اس کی مزید تفصیل جاننے کے لئے تفسیر کا مطالعہ کیا جائے۔

قرآن مجید ایک دوسری آیت ۴۱، سورہ روم میںاللہ تعالیٰ نے یاد دہانی کرائی ہے۔

ظَهَرَ الْفَسَادُ فِى الْبَـرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِى النَّاسِ لِيُذِيْقَهُـمْ بَعْضَ الَّـذِىْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُـمْ يَرْجِعُوْنَ 

خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب سے فساد پھیل گیا ہے تاکہ اللہ انہیں ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے تاکہ وہ باز آجائیں۔

مذکورہ تینوں قرآنی حوالہ کو سمجھنے کے بعد کیا اب بھی اپنے آپ کو سنوارنے کے بارے میں نہیں سوچیں گے؟

جب ہر گھر سے نوجوان (عمر ۲۵ تا ۴۰ برس) یکے بعد دیگرے اللہ کو پیارے ہونے لگے توقوم کے کچھ غیور حضرات کو آج یہ فکر ستانے لگی ہے کہ بیواوں اور یتیموں کا سہارا کون اور کیسے بنے گا؟ ۔۔۔۔۔۔۔ 

آج یہ فکر ستانے لگی ہے کہ ہماری بیٹیاںپیسہ پرست بن چکی ہیں تبھی تو لالچ میں غیرمسلموں کا ساتھ پسند آرہا ہے اور چھ مہینہ کے بعد جب وہ گھر سے نکال دیتے ہیں تو ان لالچی بیٹیوں کے پاس رونے کے علاوہ کچھ نہیں بچتا۔ ’’یعنی اب پچھتاوے کیا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔ وہ تو ببانگ دہل کہہ رہے ہیں کہ ’’ہمیں تو اُن کی بیٹیوں سے پیار ہے، ہمیں مسلمانوں سے نفرت تھوڑے ہی ہے‘‘ ہم تو پریم پجاری ہیں۔ ہمیں تو اس کام کے پیسے دیے جاتے ہیں۔ ہم تو دو طرفہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مال اور مزا دونوں۔

آخر کب تک ہم چادر سے زیادہ ٹانگ پھیلا کر اپنے جسم کی نمائش کرتے رہیں گے؟

نکاح کو سنت طریقے پر انجام دینے میں اور کتنے  وقت انتظار کرنا ہے؟ یہ کہنا ہم کب چھوڑیں گے کہ ’’وہ زمانہ اور تھا‘‘ کیا ہم رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)کے زمانہ سے بہتر زمانہ میں جی رہے ہیں؟ ۔۔۔۔۔۔۔ کیا اس طرح کی باتیں کر کے ہم بذاتِ خود محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے پیروکار کی دعوے داری کے باوجود انکار کر رہے ہیں اور ہمیں احساس تک نہیں۔ دوسری قوم اگر ہمارے رسول کے خلاف کہہ دے تو ہمیں ہماری حمیت ایسے جاگتی ہے کہ ہم سے بڑا ایمان والا کوئی نہیں ہے۔ کھلے عام ہم سنت کی خلاف وزی کریں تو ہم پکے مومن؟؟ یہ دہرا معیار کیوں؟ یہ ڈبل اسٹینڈرڈ کیوں؟ کب تک رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مخالفت کرکے اپنے آپ کو محمدی (صلی اللہ علیہ وسلم) کہتے رہیں گے؟ 

مذکورہ سوالات جسے پڑھ کے یا سن کے آپ کو ناگوار گزر رہی ہیں، ایسا ہی ہوگا، نا گوار ہی گزرے گا۔

کیوں؟  کیوں کہ ہمارے اکابرین نے ہمیں ہر موقع پر یہی کہا کہ ’’تم ابھی بچّے ہو،  تم ابھی نہیں سمجھوگے‘‘ 

افسوس یہ کہ ہمیں سمجھانے والا ابھی تک کوئی ایسا بزرگ نہیں ملا، یا اصل میں قرآن و حدیث کو سمجھ کر مجھے سمجھانے والا نہیں ملا

ننانوے فیصد لوگوں نے رٹّا لگا کے تعلیم حاصل کی ہے، بس وہی آگے منتقل کرتے جا رہے ہیں۔

دس سے پندرہ برس کسی بھی دینی یا عصری ادارہ میں عمر خرچ کرکے کیا حاصل کیا؟

آج بھی میرے سوال جوں کے توں بنے ہوئے ہیں۔ آج بھی میرے سوالوں کے جواب نہیں ملے ہیں۔

ملیں گے بھی کیسے؟ جب سنت کو طریقہ محمدی کے مطابق عمل میں لایا ہی نہیں تو کیسے ملیں گے۔؟

مالی طور پر معاشرہ کی بہتری کا نظام صدقہ کی وصولی ہے۔کیا یہ نظام سنت کے مطابق جاری ہے؟ نہیں۔ اگر یہ سنت کے مطابق عمل میں لایا جائے تو بہت جلد مسلم قوم مالی طور پر خود کفیل بن جائے گی۔ لیکن میں تجربہ ہے کہ برسوں سے صدقہ کا نظام غیر شرعی طریقے سے رائج ہے۔ خود کفیل بنانے کا ہمارے یہاں کوئی نظام نہیں ہے۔ کوئی بھی جماعت، تنظیم یا ادارہ دعوے داری کرتی ہے کہ انہوں نے لوگوں کو خود کفیل بنایا ہے تو یہ صرف آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں تعلیمی ادارے تو بڑے بڑے ہیں، اسپتال بھی بنا لئے، اور دیگر فلاحی ادارے بھی بنا لئے لیکن تعلیمی اعتبار سے ہماری قوم کے کتنے فیصد لوگ ان اداروں میں اعلیٰ تعلیم کے لئے جاتے ہیں؟ اُن اسپتالوں میں کتنے فیصد ڈاکٹرس آپ کے کام کرتے ہیں؟  شاید ہی کوئی ایسا صوبہ بچا ہوگا جہاں مسلم قوم نے اپنے یہ تینوں ادارے قائم نہیں کئے ہوں گے۔ لیکن آپ ان اداروں کا دورہ کریں اور پتا لگائیں کہ ہماری قوم کے کتنے فیصد لوگ استفادہ کر رہے ہیں اور کتنے فیصد لوگ خدمات انجام دے رہے ہیں؟

رفاہی اداروں میں گھوم کر دیکھیے، وہاں بھی اگر تعلقاتی اور چاپلوس قسم کے لوگ ہیں تو معقول تنخواہ اورصلاحیت مند ہیں، خود دار ہیں تو ان کی اجرت دینے کے لئے جواب ہے ’’بھائی خیراتی ادارہ ہے، اتنی اجرت تو ادارہ نہیں دے سکتا۔ سوچ لیجے کرنا چاہتے ہیں تو کیجیے ورنہ کہیں اور دیکھیے۔‘‘ انٹرویو ایسے لیں گے جیسے کہ آئی ایس افسر بحال کر رہے ہیں۔ اور اجرت ’’دس ہزار روپےماہانہ‘‘ ایک گریجویٹ یا فارغ التحصیل بندہ یا بندی کیوں اس قسم کے اداروں میں کام کرے؟ آج کی تاریخ میں چار سو روپے کی دہاڑی اینٹ مٹی ڈھو کر بھی بنا لیتے ہیں۔ ایک قلی بھی ہزار روپے کی دہاڑی بنا لیتا ہے۔ ایک سبزی یا پھل فروخت کرنے والا بھی ہزار روپے کی دہاڑی نکال لاتا ہے۔ اگر ہم یہ موازنہ پیش کر رہے ہیں تو ممکن ہے یہ میرے سوچ کی غلطی کہہ سکتے ہیں کہ ’’بتاؤ بھائی یہ مولوی کس سے اپنا موازنہ کر رہا ہے‘‘ یہ اتنا بڑا فرق اور یہ غلط موازنہ کس نے قائم کیا ہے؟ ہم ہر اُس مذہب کے ٹھیکیدار سے سوال کر رہے ہیں جو اپنی کارنامے گنوا کے چندہ وصولتے ہیں اور ضرورت مندوں پر خرچ کے نام پر دس فیصد بھی نہیں۔ باقی نوے فیصد سرمایہ کس کام میں استعمال ہوتا ہے؟ یہی سب سے بڑی غلطی اور گھوٹالہ ہے جس کی وجہ سے ہماری قوم خود کفیل نہیں ہو پا رہی ہے۔

تعلیم یافتہ نہ ہونے کے پیچھے کی وجہ صرف اور صرف یہ کہ قابل لوگوں کو کام پر رکھ کر اُن کی محنت کے مطابق معاوضہ نہ دینا۔ اور خود غرضانہ نظام کو معاشرہ میں رائج رکھنا۔ اور جب تک اس سوچ کے تحت یہ نظام چلتا رہے گا، مسلم معاشرہ کبھی بھی خود کفیل نہیں ہو سکے گا۔

بات ہے ۱۹۸۲ء کی جب ہم عربی ثانیہ میں پڑھا کرتے تھے۔ ہمارے گاؤں کے دو اور لڑکے درجہ حفظ میں پڑھا کرتے تھے اور مکمل کرنے کے قریب تھے۔ شعبان میں مدرسے کی چھٹی کے بعد ہم لوگ گاؤں پہنچے ہوئے تھے۔ صلوٰۃ مغرب کے بعد مسجد کے قریب ایک صاحب کے بیٹھک میں اکثر لوگ جمع ہوتے تھے اور ایک دوسرے کی خیریت معلوم کرتے تھے۔ ہم لوگوں کو بھی شامل کیا گیا۔ حافظوں سے قرأت سنی گئی۔ مجھ سے تقریر سنی گئی۔ جوش جذبات میں لوگوں نے اپنی خواہشات کا اظہار کیا کہ ہمارے گاؤں کے تین لوگ چند سالوں کے بعد حافظ مولوی بن جائیں گے تو ہم بھی اپنے گاؤں میں ایک مدرسہ کھولیں گے، اور بچوں کو دینی تعلیم کا بندوبست کریں گے۔ ہمارا گاؤں بھی دین دار ہو جائے گا۔ میرا سوال تھا کہ کیا آپ کے پاس کوئی لائحہ عمل ایسا ہے کہ آپ بچوں کو دینی تعلیم دے سکیں گے اور انہیں خود کفیل بنا سکیں گے؟ جواب میں وہی برسوں پرانا جملہ ’’چندہ کریں گے۔‘‘ 

کون کرے گا؟ 

جیسے دوسرے مدرسے کے مولوی حافظ کرتے ہیں ویسے یہاں کے کریں گے۔ 

میں کہا کہ پھر آپ لوگ کیا کریں گے؟ 

آپ کتنے بچوں کی کفالت کریں گے؟ 

خاموشی

میں نے کہا کہ جب آپ لوگ خود اپنے سرمایہ سے اپنے گاؤں کے بچوں کوتعلیم یافتہ بنانے کا منصوبہ رکھتے ہیں تو ہم اس منصوبے میں شامل ہو ں گے۔ بصورتِ دیگر ہم اس میں شامل نہیں ہو سکیں گے۔

ظاہر ہے کہ ایک سولہ برس کے بچے کا یہ جواب چالیس سے اسی برس کے لوگوں کے لئے گراں گزرے گا۔

کیوں کہ مجھے اُن کے اندر کا جذبہ نکالنا تھا۔ افسوس یہ کہ میں اُن کے اندرونی جذبے کو آج تک نہیں نکال پایا۔ ایسا نہیں کہ ہمارے میں گاؤں کے لوگ مالدار نہیں ہیں۔ کل بھی تھے آج بھی ہیں۔ ایسے ایسے لوگ ہیں جو کم و بیش دس یتیم بچوں کی کفالت کر سکتے ہیں۔ لیکن چوں کہ یہ کام کرنا پڑے گا۔ اس میں انہیں شہرت نہیں ملے گی یا کم ملے گی۔ یتیم بچے پڑھ لکھ کر کچھ قابل بن جائیں گے۔ وہ ہمارے مالدار گھرانے کے لوگوں کو کل بھی برداشت نہیں تھا اور آج بھی ناقابلِ برداشت ہے۔ اگر یہ یتیم بچے پڑھ لکھ کر کسی قابل بن گئے تو اُن کو صبح شام سلام کون کرے گا؟  بس یہی ابو جہل والی جہالت ہماری قوم کوخود کفیل نہیں بنا پا رہی ہے۔ مالدار لوگوں میں خود نمائی کا جذبہ ختم نہیں ہو رہا۔ غریب و یتیم جو صبح شام لوگوں کے طعنے اور جھڑکی سن کے دو وقت کی روٹی کمانے کے لائق بنے گا تو اُن کی کیوں سنے گا؟ وہ تو اُس مالک کی شکر گزاری کرے گا جس نے اُسے اس قابل بنایا ہے یا بنانے میں تعاون کیا ہے۔ جن لو گوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت دے دے وہ اللہ کا شکر ادا کریں گے اور زمین پر اُس کی قدر کریں گے جنہوں نے اسے اپنے مقصد حاصل کرنے میں دامے درمے سخنے تعاون کیا ہے۔ افسوس کہ ہمارے مالدار لوگوں میں بہت کم لوگوں میں نیکی کا جذبہ پایا جاتا ہے۔

اب اُن تینوں بچوں کا کیا ہوا؟ جی ہاں ایک حافظ بنا، تراویح سناتا رہا، روزی روٹی کے لئے امبروڈری کا کام سیکھا، اور کرتا رہا۔ پڑھانے کے لئے کسی مدرسہ میں نہیں گیا ۔ 

دوسرا حافظ اور مولوی بنا، تراویح سناتا رہا، جمعہ بھی پڑھاتا رہا۔ کسی ادارہ میں بھی درس دیتا رہا۔ لیکن معاشرہ کے طور طریقہ اور قرآن و حدیث میں زبردست ٹکراؤ نے اس کا ذہنی توازن بگاڑ دیا۔ ذہنی توازن کھونے کے بعد وہ خود بھی کھو گیا۔ اللہ بہتر جانے کہاں گیا۔ یعنی جو اُس نے پڑھا اگر اس موضوع پر جمعہ میں خطاب کیا تو لوگوں کو گراں گزرتا۔ لوگ اکثر یہی چاہتے ہیں کہ ہمارے معاملات کے موضوع پر کوئی مولوی نہ ٹوکے۔  انہیں تو مسجد و مدرسہ کے لئے ایسا مولوی چاہیے جو معاشرے کی غلطیوں پر پردہ ڈالے بلکہ ہو سکے تو وہ بھی ویسا ہی کرے جیسا کہ معاشرے میں رائج ہے۔ تو اب آپ خود نتیجہ نکالیں کہ معاشرے میں بہتری کیسے آئے گی۔؟

تیسرا،  مولوی بنا،۱۹۸۹ء میں فضیلت مکمل کی، پیشہ کتابت کو بنایا، صحافت کی، سافٹوئیر ڈیولپمنٹ کیا، فی الحال ہیلتھ کنسلٹنٹ کے طور پر لوگوں کی خدمت کر رہا ہے۔ وہی اُس کی روزی کا ذریعہ ہے۔ صحت اور معاشرہ کے موضوع لکھ کر لوگوں کو جگانے اور احتیاط رکھنے کی ترغیب دلاتا ہے۔ پرانے موضوعات جو مسلم قوم کی دکھتی رگ کہی جا سکتی ہے، کبھی کبھی دبانے کی کوشش کرتا ہے، جس سے بہت سے اہل علم ناراض ہو جاتے ہیں، لیکن بہتری کا فارمولہ اُن کے پاس بھی نہیں ہے۔ یا اُن کی عزتِ نفس انہیں روک رکھی ہے۔

صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے

زندگی یوں ہی تمام ہوتی ہے

منشی امیر اللہ تسلیم

اللہ بس باقی ہوس

 ☆ ☆ ☆

از ➗  فیروزہاشمی


1st May 2021


عید یومِ محاسبہ و معاہدہ

 ⬅️’’عید‘‘  یومِ محاسبہ و معاہدہ ➡️ عمومی طور پر دنیا میں مسلمانوں کے تین تہوار منائے جاتے ہیں، جو کہ خوشی، معاہدہ، محاسبہ، ایثار وغیرہ کا پ...