Thursday, February 9, 2023

چراغ تلے اندھیرا

تَعَلَّمُوا القرآنَ وعلِّمُوهُ الناسَ وتعلَّمُوا العِلْمَ وعلِّمُوهُ الناسَ وتعَلَّمُوا الْفَرَائِضَ وعلِّمُوهَا الناسَ فإِني امرؤٌ مقبوضٌ وإنَّ العلْمَ سَيُقْبَضُ حتى يختلِفَ الرجلانِ في الفريضةِ لا يَجِدَانِ من يُخْبِرُهُمَا

قرآن مجید کی درس وتدریس کی فضیلت میں مذکورہ حدیث عموماً پیش کی جاتی ہے۔

قرآن مجید کے سیکھنے اور سکھانے اور اس کی درس وتدریس کے لیے جمع ہونے کی فضیلت کے بیان میں کئی احادیث مروی ہیں۔ … … حضرت ابوہریرۃ سے روایت ہےکہ جب بھی کوئی قوم اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں جمع ہو کر کتاب اللہ کی تلاوت اور اس کی درس وتدریس کی کوشش کرتی ہے توان پر سکینت نازل ہوتی ہے، اللہ کی رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے، اور فرشتے انہیں گھیرے میں لے لیتے ہیں،اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا ذکر ان فرشتوں کی مجلس میں کرتے ہیں جو اللہ کے پاس ہوتے ہیں۔''

اس حدیث میں چار باتیں بیان کی گئیں ہیں

ان پر سکینت نازل ہوتی ہے۔

رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے۔

فرشتے انہیں گھیرے میں لے لیتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ان کا ذکر اپنے پاس موجود فرشتوں کی مجلس میں کرتے ہیں۔

ہم میں سے کون ایسا ہے جو ان مذکورہ بالا باتوں میں سے کسی ایک کی بھی خواہش نہ رکھتا ہو، کس قدر تعجب کی بات ہے کہ ایک ہی عمل میں یہ تمام فضیلتیں ایک ساتھ جمع ہو جاتی ہیں۔

مزید قرآن و حدیث سے حوالہ دینے یا وضاحت کرنے سے بہتر ہے کہ ہم رائج خیالات و رواج پر گفتگو کریں۔ کیوں کہ یہ بھی ہمیں کچھ نہ کچھ مرحلے آسان کرتی ہیں۔ مثال کے طور مذکورہ محاورہ ’’چراخ تلے اندھیرا‘‘ کا کیا مطلب ہمارے معاشرے میں لیا جاتا رہا ہے، اس پر توجہ دیں۔

۱۔اس موقع پر مستعمل جہاں کسی نیکی خوبی یا فائدے کی بات سے قریب تر اشخاص وغیرہ محروم ہوں یا بیگانوں کو فائدہ پہنچے اور یگانےمحروم رہیں ، روشن دلوں سے بے خبری واقع میں آئے.۔

۲۔پرانے زمانے میں گھروں میں رات کو چراغ جلائے جاتے تھے ۔ چراغ کے نیچے اندھیرا ہوتا ہے جبکہ وہ سارے گھر کو روشن کرتا ہے ۔ اسی مناسبت سے اگر کسی شخص سے ساری دنیا کو فیض پہنچے لیکن اس کے قریب کے لوگ محروم رہیں تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔

۳۔ اس سے متعلق ایک حکایت بیان کی جاتی ہے ۔ ایک سوداگر سفر کرتا ہوا ایک بادشاہ کے قلعہ کے پاس پہنچا تو رات ہوچکی تھی اور قلعہ کا دروازہ بند کیا جاچکا تھا ۔ اس نے قلعہ کی دیوار کے سایہ میں رات گزارنے کا ارادہ کیا ‘ اس نے سمجھا کہ بادشاہ کے ڈر سے کوئی بدمعاش یہاں آنے کی ہمت نہیں کرے گا ۔ رات کو چور اس کا سارا سامان چرا کر رفو چکر ہوگئے ۔ صبح سوداگر اٹھا تو اپنی بدحالی کی فریاد لے کر بادشاہ کے سامنے گیا ۔ بادشاہ نے اس سے پوچھا تم قلعہ سے باہر کھلے میدان میں آخر سوئے ہی کیوں ‘‘ ۔ اس نے عرض کیا ’’بادشاہ سلامت! مجھ کو اطمینان تھا کہ آپ کا اقبال میری حفاظت کرے گا اور کسی کو مجھ لوٹنے کی ہمت نہ ہوگی مجھے خبر نہیں تھی کہ ’’چراغ تلے اندھیرا ہوتا ہے۔‘‘

۴۔غیروں کو فائدہ پہنچانا اور اپنوں کو محروم رکھنا

اگر ہم معاشرے میں نظر دوڑاتے تو اکثر ایسا ہی ہو تا دکھائی دے رہا ہے۔ ہم علم حاصل کر رہے ہیں لیکن ٹکسالی علم کے حامل ہیں خواہ وہ عصری یا دینی، کوئی بھی تعلیم ہو۔ ابھی کچھ دنوں پہلے تک روزانہ کوئی نہ کوئی ایسا چھوٹا ویڈیو یا آڈیو پیغام واٹس ایپ کے ذریعہ آجاتا تھا جس میں اماموں، مولویوں، مؤذنوں کی مفلوک الحالی کا رونا رویا جا رہا ہے۔ کچھ اماموں کی تنظیمیں بھی ہیں، ان کے رہنما ان کی خاصیتیں بیان کر رہے ہیں اور اُن کی محنت اورکوششوں کو اس طرح لوگوں پر بیان کر رہے ہیں کہ جیسے دین انہیں کی وجہ سے بچا ہوا ہے۔

پھر دوسری طرف مسلم قوم کے ساتھ دیگر فرقہ کے لوگوں کے ذریعہ ستائے جانے کے واقعات بھی بیان کئے جاتے ہیں۔ یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر مسلم قوم کی کیا سوچ و فکر بنتی جارہی ہے۔ جو ملا اسے عمل میں نہیں لایا جاتا  اور نہ ہی شکر کیا جاتا۔ جو نہیں ملا اُس کا رونا رویا جاتا۔ آخر مسلمان چاہتا کیا ہے؟ آخر مسلمان دنیا میں جنت کی امید کیوں لگائے بیٹھا ہے۔؟

اگر آپ سے کوئی لیڈر مذاکرات کے لئے کہتا ہے تو اسے بھی آپ تسلیم نہیں کرتے۔ … … اگر الیکشن کی تیاری کی وجہ سے ایسا بیان آ رہا ہے … تو آج کوئی نیا تو ہے نہیں۔ … دہائیوں سے جاری ہے۔ 

اگر آپ کہتے ہیں بیوقوف بنایا جارہا ہے تو آپ دہائیوں سے بیوقوف ہیں اور نئے بن بھی رہے ہیں۔

وہ الیکشن کی تیاری کر رہے ہیں، اُن کا کام ہے، اُن کی ذمہ داری ہے۔ وہ کر رہے ہیں۔ … … ہمیں بھی کچھ تیاری کا حکم دیا گیا ہے۔ … … جیسے کہا گیا کہ قیامت قریب ہے۔ … … نجات حاصل کرنے کے لئے کچھ سوالات کے جواب دینے ہوں گے۔ … … کیا ہم اس کی تیاری کر رہے ہیں؟

قرآن مجید پڑھنا پڑھانا بہت ہی عمدہ عمل ہے، جیسا کہ حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔ آپ دس لوگوں سے پوچھیں کہ آپ اپنے بچے کو قرآن مجید پڑھا کر ایک حافظ مولوی بنانا پسند کریں گے؟ … … تو دس میں سے شایدسبھی کا جواب اثبات میں ہوگا۔ لیکن یہ یہی سوال اس طرح پوچھیں کہ آپ اپنے بچے کو قرآن مجید اور احادیث پڑھا کر ایک اچھا انسان بنانا پسند کریں گے؟ … … تو تقریباً سب کے سب سوچ میں پڑھ جائیں گے۔

ایسا ہم کیوں کہہ رہا ہیں … … کہ ہم چاہتے تو ہیں … … کہ ہم قرآن و حدیث والے بنیں … لیکن نفسانی خواہش کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

جو پڑھے لکھے نہیں ہیں۔ کبھی کسی تعلیمی ادارے کا رُخ نہیں کیا۔ یا کسی نے زبانی طور پر کوئی تعلیم نہ دی۔ یا اُن تک نہ پہنچی تو اُن کو تو اَن پڑھ کہا جاسکتا ہے۔ اگر وہ کوئی غلطی کریں یا کسی غلط رسموں سے وہ اپنی زندگی گزاریں تو اُن آپ اَن پڑھ اور جاہل کہہ سکتے ہیں۔ وہ کہیں کہ ہم نے تو اپنے باپ دادا کو ایسا ہی کرتے ہوئے پایا۔ تو کسی حد تک اُن کا کہنا درست ہے۔ 

لیکن جو کسی نہ کسی طریقے پڑھ لکھ رہے ہیں۔ تعلیمی ادارے کا بھی رُخ کر رہے ہیں۔ دسیوں برس اسکول یا مدرسے کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اس کے بعد مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ذمہ داری نبھا رہے ہیں لیکن طور طریقے غیر سنت ہے تو اُن کو کیا کہیں گے؟

حافظ یا مولوی بن کے بندہ گھر آتا ہے اور وہ گھر میں سنت کے مطابق طریقہ رائج کرنا چاہتا ہے تو اُسے گھر کے ہی لوگوں سے جواب ملتا ہے کہ  ’’دو چار کتابیں پڑھ کے قابلیت جھاڑ رہے ہیں…  ہمارے یہاں جو رائج ہیں…  ہم وہی کریں گے۔ … تم اپنا درس مدرسے کے بچوں کو دینا۔‘‘

بچے ماشاء اللہ اتنے فرماں بردار ہوتے ہیں کہ اُن کے ماں باپ اَن پڑھ یا لا علم ہیں اور بھی روایتی خرافات کے ساتھ زندگی جی رہے تو پڑھے لکھے بچے بھی اپنے والدین کو اتنی جلدی قائل نہیں کر پاتے۔ اور اُن کا جواب ہوتا ہے کہ ’’میرے ماں باپ جیسا کہیں گے، ویسا تو کریں گے۔‘‘ ہم نہیں جانتے کہ سنت کیا ہے اور فرض کیا ہے؟ جو ہمارے خاندان میں رائج ہے وہیں کریں گے۔

اب آپ بتائیں اِس جہالت کو کیسے سدھاریں گے؟

علم کیا ہے؟ اللہ کی معرفت کا ذریعہ۔ اور 

جاہلیت یہ ہے کہ اللہ کی  الوہیت سے آدمی جاہل ہو اور اپنے آپ کو کسی ایک معاملے میں یا اکثر معاملات میں شریعت کا پابند نہ سمجھے۔

سورہ لقمان میں حق باری تعالیٰ کا ارشاد ہے

وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّـهِ ۖ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ (لقمان۱۳)

’’اور جب کہ لقمان نے وعظ کہتے ہوئے اپنے لڑکے سے فرمایا کہ میرے پیارے بچے! اللہ کے ساتھ شریک نہ کرنا بیشک شرک بڑا بھاری ظلم ہے‘‘۔[سورہ لقمان۱۳]

وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَىٰ وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ  (لقمان۱۴)

’’ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی ہے، اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر اسے حمل میں رکھا اور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر، (تم سب کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے‘‘[سورہ لقمان۱۴]

دیکھئے تو ماں اپنے بچے کو کس قدر مشقّت کے ساتھ اپنے پیٹ میں اٹھائے رکھتی ہے،جب کہ باپ بچے کے تمام اخراجات برداشت کرنے کی ذمہ داری کو نبھانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتا۔ اس وجہ سے والدین کا اپنے بچے پر یہ حق ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کے ساتھ اپنے محسن والدین کے احسانات کا بھی شکر گذارہو۔۔

آج تربیت اولاد کے موضوع پر دسیوں کتابیں بازار میں موجود ہیں۔

اور گھروں و خاندانوں کا جائزہ لیں تو نتیجہ نکلے گا کہ ہم نے بچوں کو صرف پیسہ کمانے کی مشین بنائی ہے۔ باقی سب کچھ ویسے ہی چل رہا جیسے پرانے زمانے سے چل رہا تھا۔

جہالت کے نمونے کے طور پر اللہ کے رسول مُحمَّدکے زمانے میں ایک شخص کا لقب ابو جہل پڑا۔ اہلِ علم کو پتا ہوگا کیوں؟  …  کیوں کہ وہ شخص یعنی  ’’عمرو بن ھشام بن المغیرہ جس کی کنیت ابوالحکم تھی۔ آبائی مذہب پر سختی سے قائم رہنے کی وجہ سے ابوجہل کے لقب سے مشہور ہوا۔ اسلام اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دشمن تھا۔ مکے میں آنحضرت اور صحابہ نے اس کے ہاتھوں سخت اذیتیں جھیلیں۔ بدر کی لڑائی میں قتل ہوا۔‘‘

وہ شخص سمجھدار اور عقل مند ہونے کی وجہ سے اپنے زمانے کا ابوالحکم تھا لیکن اللہ کا پیغام نہ ماننے کی وجہ سے ابو جہل قرار دیا گیا۔  اب ہم پڑھے لکھے ہونے اور اللہ کا پیغام نہ ماننے کے بعد بھی پکے مومن، جنت کا پرچہ میرے نام نکل چکا ہے۔ چاہے ہم اپنی زندگی سنت کے مطابق نہ گزاریں، شیطان کو اپنا دوست اور بھائی بنائے رکھیں پھر بھی پکے مُحمَّدی۔

 دوستی، تعلقات، بڑی گہرائی تک ہے۔ لیکن جیسے ہی معاملات کی نوبت آتی ہے۔ وہاں پر سب کھل کر سامنے آجاتے ہیں کہ کون کتنا دین دار ہے۔

وہاں تک دین کے ساتھی ہزارو

جہاں تک ہاتھ سے دنیا نہ جائے

سہیل آفندی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

از فیروزہاشمی، نوئیڈا، اترپردیش


No comments:

Post a Comment

عید یومِ محاسبہ و معاہدہ

 ⬅️’’عید‘‘  یومِ محاسبہ و معاہدہ ➡️ عمومی طور پر دنیا میں مسلمانوں کے تین تہوار منائے جاتے ہیں، جو کہ خوشی، معاہدہ، محاسبہ، ایثار وغیرہ کا پ...