Wednesday, April 10, 2024

عید یومِ محاسبہ و معاہدہ

 ⬅️’’عید‘‘  یومِ محاسبہ و معاہدہ ➡️


عمومی طور پر دنیا میں مسلمانوں کے تین تہوار منائے جاتے ہیں، جو کہ خوشی، معاہدہ، محاسبہ، ایثار وغیرہ کا پیغام اور اعادہ کرنے کا پہلو واضح کرتے ہیں، وہ تین ہیں۔  

رمضان المبارک، شوال المکرم اور ذی الحجہ 

رمضان کے ایک ماہ پورا کرنے کے بعد عید کا تہوار ایک طرح سے اللہ تعالیٰ کی جانب سے مزدوری دیے جانے کا دن ہے۔ تقریباً ایسے ہی جیسے کہ ایک مزدور خواہ وہ کسی میدانِ عمل میں محنت و مشقت کرتا ہو، جب اُس کے معاوضہ ملنے کا دن اور وقت آتا ہے تو وہ بہت زیادہ خوش ہوتا ہے۔ اُسی طرح عید کا دن مومنین کے لئے بے حد خوشی کا دن ہوتا ہے۔ اِس کے جتنے بھی احکام و فضائل ہیں وہ اکثر رمضان المبارک سے جڑے ہوئے ہیں، لہٰذا رمضان المبارک کو سمجھ کر برتنے والے زیادہ خوشی محسوس کریں گے اور وہ عملی زندگی میں احکامِ خداوندی پر عمل پیرا ہونے کے لئے طریقۂ محمدی کو اپنائیں گے تو یقیناً اللہ تعالیٰ کے سامنے خوش و خرم اور سرخ رو ہوں گے۔

رمضان المبارک جو سراپا زندگی جینے کا پیغام دیتا ہے اور عمل پیرا ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔ اصل پیغام و عمل یہ ہے کہ رمضان کے علاوہ گیارہ مہینے بھی آپ اسی طور طریقے کے مطابق زندگی گزاریں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں صوم سے متعلق رہنمائی اور ہدایت اور پیغام سورہ بقرہ آیت ۱۸۳ تا ۱۸۵ موجود ہے۔

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَـمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۔

مومنو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں۔ جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بنو۔

شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ۝۰ۚ فَمَنْ شَہِدَ مِنْكُمُ الشَّہْرَ فَلْيَصُمْہُ۝۰ۭ وَمَنْ كَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ۝۰ۭ يُرِيْدُ اللہُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ۝۰ۡوَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّۃَ وَلِتُكَبِّرُوا اللہَ عَلٰي مَا ھَدٰىكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝۱۸۵

رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے اور (جس میں) ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور (جو حق و باطل کو) الگ الگ کرنے والا ہے تو جو کوئی تم میں سے اس مہینے میں موجود ہو چاہیے کہ پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں (رکھ کر) ان کا شمار پورا کرلے۔ خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا اور (یہ آسانی کا حکم) اس لئے (دیا گیا ہے) کہ تم روزوں کا شمار پورا کرلو اور اس احسان کے بدلے کہ خدا نے تم کو ہدایت بخشی ہے تم اس کو بزرگی سے یاد کر واور اس کا شکر کرو۔

روزے کی فرضیت کا حکم سن ۲ ہجری میں تحویلِ قبلہ کے واقعہ سے کم و بیش دس پندرہ روز بعد نازل ہوا۔ آیتِ روزہ شعبان کے مہینے میں نازل ہوئی۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

مَن قام رمضان إيمانًا واحتسابًا غُفر له ما تقدَّم من ذنبه. 

متفق علیہ 

جس نے بھی ایمان و احتساب کے ساتھ رمضان کا اہتمام کیا اُس کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔

عید کی تشریح اور تعریف میں بہت سی روایتیں اور تاریخی طور طریقے موجود ہیں، لیکن مومنین کی اصل عید رمضان المبارک کے اصولوں پر کاربند رہنے کے بعد انعام لینے کا دن ہے۔ عید اور بقیہ ایامِ زندگی گزارنے کے لئے قرآن کی یہ آیت رہنمائی کرتی ہے، جس کے اصولوں پر عمل پیرا ہونا ہر مومن کے لئے ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا

قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْا هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ(۵۸)

سورۂ یونس، آیت ۵۸

آپ کہہ دیجیے اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر ہی خوشی منانی چاہیے، یہ اس سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔ 

کسیپیاری اور محبوب چیز کے پانے سے دل کو جو لذت حاصل ہوتی ہے اس کو ’’فَرح ‘‘کہتے ہیں ،اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ ایمان والوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل و رحمت پر خوش ہونا چاہئے کہ اس نے انہیں نصیحتیں، سینوں کی شفاء اور ایمان کے ساتھ دل کی راحت و سکون عطا فرمایا۔

دوسری جگہ ارشاد فرمایا

یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا ۚ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ

سورۃ الاعراف آیت ۳۱

اے آدم کی اولاد! ہر نمازکے وقت اپنی زینت لے لو اور کھاؤ اور پیو اور حد سے نہ بڑھو بیشک وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔

مذکورہ آیت کی روشنی میں زندگی پوری کی پوری اس اصول کے مطابق گزارنے والا اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ ہوگا۔ ہمیں کس طرح سے زندگی جینے کے اصول اللہ تعالیٰ نے بتا دیے ہیں، اور صحت کے اصول اس آیت کے ٹکڑے میں کہ ’’کھاؤ پیولیکن فضول خرچی نہ کرو۔ اور یہ بھی بتا دیا کہ اللہ تعالیٰ فضول خرچی کرنے والے کو پسند نہیں فرماتا۔

خوشی کی تشریحات میں علماء کرام اور اہلِ علم نے خوب خوب تشریح کی ہے اور اکثر غلو کے شکار بھی ہوئے ہیں۔ واٹس ایپ یونیورسٹی کے ذریعہ بھی ایسے ہی کچھ پیغام عام کئے جا رہے ہیں۔ یہاں پر ہم صرف ان امور کی نشاندہی کرنا چاہتے ہیں جس عمل کو کام و دہن کے بطور اوّل رکھ کر فضول خرچی کے شکار بنے ہوئے ہیں۔ بڑی عجیب بات معلوم ہوتی ہے کہ مفت خوروں کو وہ ساری حدیثیں اور احکام یاد ہیں جہاں شکم پروری ہو جاتی ہو۔ نہ اُس میں وقت کا خیال رکھا جاتا ہے اور نہ ہی اُس میں مال و صحت کے ضائع ہونے کے بارے میں خیال رکھا جاتا ہے۔

نقصان کے پہلو کو بیان کرنے کے لئے عموماً سقراط سے منسوب ایک جملہ دہرایا جاتا ہے کہ سقراط سے جب زہر کے متعلق سوال کیا گیا تو جواب یہ ملا کہ جو بھی ضرورت سے زیادہ ہو وہ زہر ہے۔ 

اس کی تشریح تو بہت کچھ کی گئی ہے اور کی جاسکتی ہے لیکن اِس سے پہلے اللہ کا یہ حکم ہمارے رہنمائی کے لئے کافی ہے کہ ’’کھاؤ اور پیو لیکن فضول خرچی نہ کرو‘‘ اہلِ علم و عقل و شعور والے انسان کے لئے سمجھنا کوئی مشکل نہیںکہ فضول خرچی کسے کہتے ہیں؟ 

جہاں بے مصرف وقت خرچ کیا جائے اُس کا وبال آئے گا۔

جہاں بے مصرف مال خرچ کیا جائے خواہ کھانے پینے، پہننے اوڑھنے، دکھاوے، گھر وغیرہ تو اُس کا وبال آئے گا۔ اور آخرت میں جواب دہ ہونا پڑے گا۔

رمضان کے مبارک مہینے میں لوگوں نے کس طرح سے اپنا وقت اور مال ضائع کیا ہے اور ساتھ میں اعمال بھی۔ بہت افسوس ہوتا ہے یہ بتاتے ہوئے کہ اِس عمل کو اکثر علماء کرام بھلائی کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ اور وہ شاید اِس لئے کہ اِس کو کھانے پینے والی ساری حدیثیں اور احکام یاد ہے، لیکن ’’ولا تسرفوا‘‘ بھول جاتے ہیں۔

جیسا کہ سبھی جانتے ہیں کہ رمضان المبارک میں ایک نیکی کا بدلہ ستر سے سات سو گنا تک بڑھا کر دیا جاتا ہے۔ اور آگے کی کوئی حد نہیں کہ اللہ کی رحمت کتنی جوش میں آئے اور اس کے بدلے کتنی نیکی لکھی جائے۔ مثلاً قرآن مجید پڑھنے والے کو ایک حرف پر دس نیکی عام دنوں میں لکھی جاتی ہے۔ یہی نیکی رمضان میں بڑھ کر کتنی ہو جاتی ہے اندازہ کیجیے۔ اس موقع پر سب سے اہم یہ بھی ہو کہ قرآن کے پیغام کو سمجھنے کی کوشش کی جائے، جو کہ عموماً نہیں کیا جاتا۔ ہم صرف دس گنا اور ستر گنا پر خوش اور مطمئن ہو جاتے ہیں۔ ذرا غور کریں یا لوگوں سے پوچھیں کہ سورہ فاتحہ ہم نماز میں پڑھتے ہیں۔ کتنے لوگوں کو اُس کا مطلب پتا ہے کہ وہ اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر کیا کہہ رہا ہے اور کیا طلب کر رہا ہے۔ شروع کی آیات میں اللہ کی وحدانیت اور اُس کی صفات کی قرآت کرتے ہیں لیکن کیا دل سے اقرار کرتے ہیں؟ پھر جب کہتے ہیں ’’اہدنا الصراط المستقیم‘‘  کیا زبان سے پڑھنے کے ساتھ ساتھ دل و دماغ میں یہ احساس جاگتا ہے کہ ہم اللہ سے سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق طلب کر رہے ہیں؟

درود شریف پڑھنے کے بعد ’’اللہم ظلمت نفسی ظلما کثیرا‘‘ آخر تک یہ دعاء بھی پڑھتے ہیں، لیکن کیا دل و دماغ سے یہ اقرار کرتے ہیں کہ واقعی ہم اپنے اوپر کتنا ظلم کرتے ہیں؟ اور اللہ سے معافی کے طلب گار بھی ہیں تو کیا احساس جاگتا ہے؟ اگر ہاں تو آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ اللہ کے رو برو ہیں۔ اور اگر نہیں تو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔ تاکہ آپ اللہ کے نزدیک ہو جائیں، اُن کے نیک بندوں میں آپ کا شمار ہو۔ آپ کو اللہ کی ذات سے بخشش، رحمت اور رہنمائی کی امید جاگتی رہے۔ تب ہی ایمان میں پختگی آئے گی۔ یہی سب سے اہم پیغام رمضان نے دیا جس کا شکریہ ہم عید کے روز ادا کرتے ہیں۔ لیکن اگر ہم نہیں سمجھتے تو پھر ہونے والی ہر تکلیف پر ہم آہ واویلا کرتے نظر آتے ہیں۔ مداوا کے لئے کبھی گلے، ہاتھ، پاؤں وغیرہ میں دھاگہ باندھتے ہیں اوربھلائی کی امید لگاتے ہیں جو کہ ایمان کی کمی اور اللہ پر اعتبار نہ ہونے کی طرح ہے۔ اور ایسی صورت میں ہماری دیگر عبادات کس کام کی؟ جب اللہ پر یقین اور اعتبار ہی نہ ہو۔ یعنی توحید کا ستون ہی کمزور ہو تو بقیہ ارکان کوئی معنی نہیں رکھتا۔ 

اس لئے ہماری گزارش ہے کہ چند آیتیں ہی سہی روزانہ پڑھنے اور سمجھنے کی عادت ڈالیں۔ بیس منٹ سے چالیس منٹ بہت مناسب ہے۔ روحانی غذائیت بھی ملے گی اور اللہ کے احکام کو سمجھنے اور برتنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ اللہ سے قریب ہوتے جائیں گے۔ قرآن کو پڑھنے اور سمجھ کر پڑھنے کے بارے میں نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا

"اقرءوا القرآن فإنه يأتي يوم القيامة شفيعاً لأصحابه." 

(مسلم)

قرآن پڑھو! یہ روزِ قیامت اپنے ساتھی کی شفاعت کرے گا۔

اب ہم عہد کریں کہ صرف وہی کام کریں گے جس کا حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا ہے اور طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اختیار کریں گے۔ ان شاء اللہ

ہم عبادات میں طریقہ سنت نبوی کو اپنائیں گے۔ نہ کہ کسی مولوی، پیر یا بزرگ کا

ہم مال کے تعلق سے بھی طریقہ نبوی پر عمل کریں گے۔نہ کہ مروّجہ رسم و رواج کو اپنا کر نیکی کی امید رکھیں گے۔ جب کہ یہ مال اور وقت دونوں ضائع ہونے کا سبب بن رہا ہے اور روزِ قیامت بھی ہمیں اس کا بدلہ وبال کی صورت میں ملے تو ہمیں نقصان ہوگا۔

ہم دیکھتے ہیں کہ رمضان میں افطار کی دعوت کرنے والے اور کرانے والے دونوں کی بہت ساری خوبیوں اور نیکیوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔ آدھا دن کھانا پکانے اور بندوبست کرنے میں لگاتے ہیں اور عصر کے بعد سے مغرب تک اور مغرب سے لے کرعشاء تک کتنی آپا دھاپی میں گزارتے ہیں جبکہ ہمیں یہ وقت سال میں ایک ماہ کے لئے ملا ہے کہ نیکی کا بدلہ ستر یا سات سو گنا تو لکھا جائے گا۔ اور اس وقت کو ہم فضول کاموں میں خرچ کر کے اللہ تعالیٰ سے بھلائی کی امید کرتے ہیں۔ کیسے؟

ابتدائی درجہ میں پڑھائی جانے والی کتاب ’’اردو کا قاعدہ‘‘ کے بہت سے چھوٹے جملے ابھی بھی یاد ہے، اور یاد اِس لئے بھی ہے کہ درجہ بدرجہ بچوں کو یہی پڑھانا رہتا ہے۔ باقی تعلیم تو بعد کی ہے۔ غور کریں اور دھیان دیں تو توحید کے مکمل کرنے کے سارے جملے یہاں مل جائیں گے۔ اسی کتاب میں آگے لکھا ہے ’’کوئی بھوکا ملے تو اسے کھانا کھلا دو‘‘  جب کہ ہم سارے پیٹ بھرے کو دعوت دیتے ہیں۔ اب اس کے پیچھے نیت کیا ہو سکتی ہے۔ اگر وہ بیان کیا جائے تو یہی کہا جائے کہ آپ کو کسی کی نیت پر شک کرنے کا کیا حق ہے؟ تو میری گزارش ہے آپ خود اپنے سے سوال کریں کہ 

یہ افطار پارٹی کس کے لئے کر رہے ہیں؟ 

محلّہ میں رعب جمانے کے لئے؟ 

بزنس پارنٹر پیدا کرنے کے لئے؟ 

لوگوں کا منہ بند کرنے کے لئے؟  

یا  اللہ کی رضا کے لئے؟

پورا رمضان گزر جاتا ہے۔ بیڑی، سگریٹ، تمباکو، گٹکھا وغیرہ کی نہ تو عادت چھوڑتے ہیں اور نہ ہی یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ فضول خرچی کے ضمن میں ہے۔ برے کو برا نہیں جانیں گے تو برائی کیسے چھوڑیں گے۔ شیطان نے وعدہ کیا تھا کہ میں تیرے بندوں کے سامنے برے کام کو اچھا کرکے پیش کروں گا۔ اور شیطان اپنے مقصد میں کامیاب ہے۔ کیوں کہ ہمیں پیکنگ نئی مل رہی تو ہم خوش ہو جاتے ہیں کہ مال نیا اور درست ہوگا۔ یہ فضول خرچی چھوڑیے، غیر سنت عمل کو چھوڑیے۔ اپنے آس پڑوس کو خودکفیل بنائیے۔ اس سلسلے میں مال کو خرچ کرنے کا سنت طریقہ اپنائیے۔

اس وقت صدقۂ فطر کو مختلف طریقے اور نام و جنس سے رقم طے کرنے کے معاملے میں لوگوں کو اُلجھایا جا رہا ہے۔ آپ نہ الجھیں بلکہ سمجھنے کی کوشش کریں۔ صدقۂ فطر خوردنی اشیاء میں سے ایک صاع دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ نصف صاع کا مشورہ وقتی تھا۔ افسوس کہ ہمارے علماء کرام وضاحت کرنے کے بجائے لوگوں کو الجھائے ہوئے ہیں۔ ہندوستان میں جو بھی غلہ جس علاقے میں کھایا جاتا ہے، اُس غلہ سے ایک صاع کے برابر غلہ ادا کریں، قیمت میں بدلنے کی گنجائش نکال لی گئی ہے، تو بھی آپ ایک صاع کے برابر غلہ کی قیمت ادا کریں۔ اگر آپ کا اسٹینڈرڈ ڈبل ہے تب تو آپ کی خیر نہیں کہ آپ کھاتے کچھ اور ہیں اور کھلاتے کچھ اور ہیں۔ یہ صدقۂ فطر ادا کرنے میں گھوٹالہ کہا جائے گا۔ یعنی نیت کا فتور۔ ہماری نیکیاں کیسے ضائع چلی جاتی ہیں، اُس سمجھنے کے لئے متفق علیہ کی روایت مشکوٰۃ شریف کی پہلی حدیث ملاحظہ فرمائیں۔

’’إنَّمَا الأعۡمَالُ بِالنِّیات، وإنما لامری ئٍ ما نوی، فمن کانت ھجرتہ إلی اﷲ و رسولہ، فھجرتہ إلی اﷲ و رسولہ و من کانب ھجرتہ إلٰی دنیا یصیبھا، أو امراۃٍ یتزوجھا فھجرتہ إلٰی ما ھاجر إلیہ۔

سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، ہر آدمی کووہی ملے گا جس نے اس کی نیت کی، جس شخص نے اللہ اور اس کے رسول کے لیے اپنا گھر بار چھوڑا تو اس کی ہجرت  اللہ اور اس کے رسول کے لیے (ہی) ہے۔ (یعنی اسے ثواب ملے گا) اور جس شخص نے دنیا کے لیے یا کسی عورت سے شادی کے لیے گھر بار چھوڑا تو اس کی ہجرت اسی مقصد کے لیے ہے (یعنی اسے ثواب نہیں ملے گا)

عبادات میں دکھاوا ہمارے بدلہ کو ایسے ختم کر دیتی ہے جیسے آگ لکڑی کو ختم کرکے راکھ کر دیتی ہے۔ لہٰذا ساتھیو! اس عید پر عہد کریں کہ جو بھی کریں گے اللہ کی رضا کی خاطر ہی کریں گے اور کچھ وقت گھر میں بیٹھ کر دین کو سمجھنے میں لگائیں گے۔ خود نہ سمجھ آئے تو علماء کرام سے رابطہ کریں گے۔ اپنے کاموں کا محاسبہ کریں گے اور ایک لائحہ عمل بنائیں گے۔ اسی کے مطابق عمل کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔ ہم دنیا میں بھی کامیاب ہوں گے اور آخرت میں نیک بدلہ ملے گا۔ ان شاء اللہ 

فیروزہاشمی

نوئیڈا، اترپریش، ہندوستان

۸؍اپریل ۲۰۲۴ء 

9811742537 

No comments:

Post a Comment

عید یومِ محاسبہ و معاہدہ

 ⬅️’’عید‘‘  یومِ محاسبہ و معاہدہ ➡️ عمومی طور پر دنیا میں مسلمانوں کے تین تہوار منائے جاتے ہیں، جو کہ خوشی، معاہدہ، محاسبہ، ایثار وغیرہ کا پ...