Wednesday, September 6, 2023

⚽⚽⚽مسجد تو بنا دی شب بھر میں⚽⚽⚽


آج واٹس ایپ، فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ سے تبلیغ سلسلہ زوروں پر ہے۔ ایسا ہی ایک گروپ ’’اہلِ علم و قلم‘‘ کا لنک میرے ایک بزرگ کے معرفت موصول ہوا۔ گروپ کے تعارف سے لگا کہ ہمیں اِس میں شامل ہو جانا چاہیے، اور میں شامل ہو گیا۔ ابھی چوبیس گھنٹے ہی گزرے تھے کہ اِس دوران پتا چلا کہ بڑے بڑے اہلِ علم و ہنر اس گروپ میں شامل ہیں۔ جو کہ کسی گروپ کی ترقی اور بہتری کےلئے ایک مثبت پہلو ہوتا ہے۔

لیکن جس طرح کام کا مثبت یا منفی پہلو ہوتا ہے، اسی طرح یہاں بھی دونوں پہلو موجود ہیں۔ مثبت پہلو کے بہت سی خصوصیات عمومی طور پر لوگ بیان کر دیتے ہیں اور اکثر لوگ ایک دوسرے کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے مل جائیں گے۔ لیکن ایسے معاملات میں منفی پہلو کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے جو کہ کسی بھی اچھے اعمال کو فروغ دینے میں مضر اور نقصاندہ ثابت ہوتا ہے۔ لہٰذا یہاں منفی پہلو پر بھی نظر ڈال لینا مناسب معلوم پڑتا ہے۔

جو بھی ہمارے فیس بک پر دوست بنے یا پھر تعارف کے بعد واٹس ایپ پر دوست ہوئے، اُن نظریات و خیالات بہت ہی محدود ثابت ہوئے۔ جسے ہم برسوں سے محسوس کر رہے ہیں اور برت رہے ہیں۔ اگر اُن سے ملاقات کے لئے کہا جائے یا فون پر گفتگو کے لئے وقت مانگا جائے تو نہ ہی اُنہیں ملنے کے لئے وقت ہے اور نہ فون پر گفتگو کے لئے وقت ہے۔ تو اِس بنا پر ہم نے نتیجہ یہ اخذ کیا کہ یہ وہ اہلِ علم ہیں جو یا تو ریٹائرڈ پرسن ہیں، جنہیں اپنا وقت گزاری کے لئے کچھ تو کرنا ہے،  لہٰذا اپنی قابلیت تھوپی جائے۔ کیوں کہ اب یہ گروپ میں بیٹھ کر تاش، لوڈو یا کیرم تو کھیل نہیں سکتے!!!

آپ اپنے علاقے میں بھی دیکھ رہے ہوں گے کہ کچھ لوگوں کو مسجد یا مدرسہ بنانے کا دُھن سوار ہو جاتا ہے۔ کوئی قبرستان کا ٹھیکیدار بن جاتا ہے۔ کوئی خیراتی ادارہ قائم کر لیتا ہے۔ اس طرح کے کاموں سے عمومی نتیجہ آٹے میں نمک کے برابر آتا ہے۔ لاکھوں روپے خرچ کرکے سینکڑوں کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ کیوں کہ ’’خلوص‘‘ ناپید ہوتا ہے۔

ہمارے محلّے میں بھی مکمل ایمان والے لوگ آ گئے ہیں، جن کے اندر انسانی ہمدردی تو نام کی نہیں ہے لیکن مسجد بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ وہ گروہ ہے جن کا طریقہ عائلی اصول میں تو کچھ بھی غلط کریں، چلے گا، بلکہ درست ہے، ایسا ہی سب کر رہے ہیں  اور شاید اُن کو یہ امید ہے کہ مسجد بنالیں گے یا نمازیں ادا کر لیں گے تو وہ گناہوں سے پاک ہو جائیں گے۔ انہیں عبادات اور معاملات کا فرق نہیں سمجھ آیا اور نہ ہی کسی خطیب نے جمعہ کے خطبہ میں ہی سمجھایا ہو، اصل بات یہ بھی ہے کہ ’’وہ سمجھنا ہی نہیں چاہتے‘‘ ۔ 

دس بارہ سال سے مسجد کے لئے یا اجتماعیت سے بیٹھنے کی کوشش کا سلسلہ جاری ہے، لیکن اجتماعی طور پر ایک مسجد بننے کے بعد یہ بے شرمی کی حد سامنے آتی ہے کہ ’’گھوشت کرو کہ یہ مسجد کس کی ہے‘‘ یعنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بن کے تیار ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ بات چندہ کے لین دین پر آتی ہے، اور مال کے زعم میں کہا جاتا ہے کہ ’’تو نے کتنا چندہ دیا ہے؟  اور اگر کوئی کہہ دے کہ اتنا۔۔۔۔۔ تو کہا گیا کہ یہ پکڑ اپنے پیسے اور اِس مسجد میں مت آئیو‘‘  ۔ ۔ یہ میری مسجد ہے۔ ۔ ۔ ’’بے غیرتی کی انتہا‘‘

یہ سوچ کہاں سے آئی؟؟؟

ایک بڑی بے بنیادی سوچ بھی ہمارے طبقہ میں رائج ہے کہ میاں ’’اپنے علاقے میں رہو‘‘۔ یہ کیا ہے؟ آج تک مجھے سمجھ میں نہیں آیا۔ کیوں کہ مشاہدہ کچھ اور ہی ہو رہا ہے۔ ہم جسے اپنا علاقہ کہتے ہیں، کیا وہاں علاقائی عصبیت نہیں پائی جاتی؟ کیا وہاں مسلکی عصبیت نہیں پائی جاتی؟ کیا وہاں ذات برادری پر مبنی عصبیت نہیں پائی جاتی؟ کیا وہاں تیری مسجد اور میری مسجد والی ذہنیت نہیں پائی جاتی؟ کیا وہاں ہمارے لوگوں کے قبرستان اور دوسرے لوگوں کے قبرستان والی بات نہیں پائی جاتی؟ کیا وہاں ’’ہم لوگ‘‘ اور ’’وہ لوگ‘‘ والی سوچ نہیں پائی جاتی ؟    اگر پائی جاتی ہے تو یہ سوچ کہاں سے آئی؟؟؟ کیا ہمارے دین میں ایسی سوچ کی گنجائش ہے؟؟؟

اور تازہ واقعہ کی مثال لیجیے۔ آپ کے اکثریتی علاقہ میں جو ہوا، آپ کیا کر پائے؟ اور ابھی تک کیا کر پانے کی حیثیت میں ہیں؟ جب کہ تین ہفتہ سے زیادہ اس واقعہ کو ہو چکا۔ آئے دن جو واقعات اقلیتی اور ذات برادری کی عصبیت کی بنیاد پر پیش آ رہے ہیں اور جو غیر انسانی حرکتیں ہو رہی ہیں، اس سے آپ کس طرح نبردآزما ہونے کی حیثیت میں ہیں؟

رفاہی کام کرنے کے لئے پوری گنجائش ہے۔ لیکن اس کا اصول ہے۔ بغیر اصول کو عمل میں لائے اِس طرح کے کاموں کی بنیاد ڈالنا ریت کا محل تعمیر کرنے کے مترادف ہے۔ اگر واقعی انسانیت سے ہمدردی ہے تو انفرادی طور پر کیجیے۔ اور اگر کوئی بڑا کام ارادہ کر لیا ہے تو اِس طرح کے رفاہی کام کے لئے  پہلے سوسائٹی بنائیں، رجسٹرڈ کرائیں پھر کام کریں۔ جلدی کامیابی ملے گی اور پائیداری بھی۔ ویسے تیرہ  سال کے بعد اب کچھ لوگوں کو سمجھ آیا ہے تو سوسائٹی کی بھاگ دوڑ میں لگے ہیں۔ لیکن ہما ہمی ابھی بھی باقی ہے۔ علاقائی عصبیت، ذاتی اونچ نیچ ذہنوں گھر کر چکا ہے۔ اِس طرح کی اخلاقی بیماری اور سوچ کو ختم کیے بغیر مسجد تعمیر کرنا اور اللہ کی رضا حاصل کرنا کیا ممکن ہو پائے گا؟؟؟

پتا نہیں کس طرح لوگوں نے سمجھ رکھا ہے کہ سماجی، معاشرتی معاملات کی غلطی کو دھونے کے لئے نماز، روزہ، عمرہ وغیرہ کام آ جائے گا، یا اُس کا بدل بن جائے گا۔ ہم نے کئی ایسے اداروں میں کام کیا ہے جن کے مالکان اپنے ورکروں کے ساتھ کی گئی زیادتی کے بدلے حج کرکے اپنے کو پاک سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اور کئی تو اتنے بے ایمان ہیں کہ پولیس ڈھونڈ تی ہے تو یہ اجتماع میں چلے جاتے ہیںاور سی بی آئی ڈھونڈتی ہے تو عمرہ کے لئے نکل جاتے ہیں۔ یہاں تک اُن کا معاملہ طے رہتا ہے کہ ’’فلائی‘‘ کے بعد ہی سی بی آئی اُن کے گھر پہنچتی ہے کہ وہ گھر پر نہ ملیں۔

لہٰذا بہتر یہ ہوگا کہ گروپ کو موضوع کے لحاظ سے مدلل اور معلوماتی مضامین ہی پوسٹ کئے جائیں، خواہ وہ خود کے لکھے ہوئے ہوں یا کسی دیگر کے۔ اگر کسی کو حوالہ کی ضرورت ہو تو اُسے حوالہ فراہم کیا جائے۔ جو باتیں عمومی نا ہوں اُسے گروپ میں نہ لایا جائے، کیوں کہ بلاوجہ طول فضول باتیں ہوتی ہیں جس سے مطالعہ کے ذوق میں کمی آتی ہے یا پھر ہر ایک کو دیکھنے کے لئے وقت درکار ہوتا ہے۔ حوالہ جات وغیرہ تعارف کے بعد انفرادی طور پر فراہم کیا جاسکتا ہے۔

۔۔۔۔

فیروزہاشمی، نوئیڈا، اترپردیش

No comments:

Post a Comment

عید یومِ محاسبہ و معاہدہ

 ⬅️’’عید‘‘  یومِ محاسبہ و معاہدہ ➡️ عمومی طور پر دنیا میں مسلمانوں کے تین تہوار منائے جاتے ہیں، جو کہ خوشی، معاہدہ، محاسبہ، ایثار وغیرہ کا پ...