ہماری تعلیمی سرگرمی اور غیرخاطرخواہ نتائج
ابنائے قدیم اپنے ادارے کو اپنے مال سے ایک فیصد بطورِ تعاون ضرور دیں۔
ہماری تعلیمی سرگرمیوں کی معلومات کوئی مصدقہ ذرائع یا اصول کے مطابق نہیں ہے بلکہ پریس ریلیز اور آئے دن ہونے والی علمی سرگرمیوں، جلسوں اور تقریبات کی خبروں پر مبنی ہیں۔ اور دورِ موجود ہ میں سوشل میڈیا کے ذریعہ۔ کسی نے کیا خوب کہا کہ
اگر کسی کے مضمون یا کتاب کے حصّہ کو اپنے نام سے نقل کر لیا جائے تو سرقہ اور کئی کتابوں سے اپنی طبیعت کے مطابق مواد کو نقل کر لیا جائے تو اسے ریسرچ کہتے ہیں۔
مسلمان صدقہ دیتا ہے تو فوٹو کھنچواتا ہے
اور غیرمسلم صدقہ کرتا ہے تو مصروف جگہ میں اپنے صدقہ رکھ دیتا ہے تاکہ ضرورت مند اپنی ضرورت کے مطابق لے جائیں۔
بہت فرق ہے سوچ میں۔
مدارسِ اسلامیہ کے تعلیمی سرگرمی کو جاری رکھنے کے لئے سب سے ضروری اور اہم ذریعہ مال ہے۔ بہت کم ادارے ایسے ہیں جن کی آمدنی کا ذریعہ بذریعہ جائیداد وہ خود پیدا کر چکے ہیں۔ (جیسے مارکیٹ، فلیٹ وغیرہ کا کرایہ، کھیت اور غلّہ) اور وہ کبھی بھی لوگوں سے چندہ یا مالی تعاون کی درخواست نہیں کرتے۔ جو مل جائے، کافی ہے۔ پہلے زبانی طور پر ایک دوسرے کے ذریعہ یا اپنے علاقے میں ہونے والی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے لوگ مالی تعاون کر تے رہے ہیں۔ کلینڈر اور دیگر پمفلٹ کے ذریعہ مالی تعاون کی درخواست کی جاتی رہی ہے۔ اب بھی یہی ذریعہ ہے۔
لیکن جب سے سوشل میڈیا کا چلن عام ہوا ہے، اب اس کے ذریعہ باتیں ہم تک بھی پہنچی ہیں۔ ان بڑے اداروں سے مالی تعاون کی درخواست آئی ہیں تو میں ششدر رہ گیا۔ اور اس میں بھی خاص ابنائے قدیم سے خصوصی درخواست کی گئی۔
اب یہاں سوچنے والی بات ہے کہ وہ لوگ جو آٹھ دس برس کسی ادارہ میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، مالی تعاون دینے اور لینے کا طریقہ سیکھتے ہیں اور بعد میں بتاتے بھی ہیں۔ وہ خود عمل پیرا کیوں نہیں ہو پاتے۔؟
میں ان جامعات و اداروں کے نام لینا یہاں مناسب نہیں سمجھتا۔ میں صرف سوچ رہا ہوں اور آپ کو بھی سوچنے پر مجبور ہونا چاہیے کہ آخر ہم جن اداروں سے علمی، عملی ،جسمانی اور قلبی سیرابی حاصل کرتے ہیں، وہاں سے فارغ ہونے اور عملی میدان میں آنے کے بعد کیا اِس قابل بھی نہیں بن پاتے کہ اپنی آمدنی کا ایک فیصد حصّہ ادارہ کو بطور تعاون دے سکیں۔ یقیناً بن جاتے ہیں۔ لیکن کیا مالی تعاون کرتے ہیں؟ ننانوے فیصد کا جواب ’’نہیں‘‘ میں ہوگا۔ ابنائے قدیم کا حوالہ دے کر جب اس شہر میں جانا ہو تو وہاں قیام کر لیا جاتا ہے اور بعض دفعہ قیام و طعام دونوں کا ہی فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ بحیثیت طالب علم مدرسہ (کیوں کہ ۱۹۷۹ سے ۱۹۸۹ء تک میں نے بھی مدرسہ سے تعلیم حاصل کی ہے)درخواست کرتا ہوں کہ جن لوگوں نے بھی مدرسہ سے متوسطہ اور علیا کی تعلیم حاصل کی ہے، وہ اپنی آمدنی کا ایک فیصد سالانہ اپنے ادارے کو تعاون کریں۔ اگر آپ کے اندر اِس سے بھی زیادہ دینے کی ہمت، طاقت، اور مال ہے تو ضرور دیجیے۔ اُن اداروں کو خود کفیل بنائیے۔ اُن بچوں کے لئے سہارا بنئے جن کے والدین بچوں کی خوراکی دینے کے اہل نہیں ہیں۔
مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کے والدین اور گارجین سے درخواست ہے کہ اگر وہ زکوٰۃ و صدقات لینے والے کے زمرے میں نہیں آتے تو برائے مہربانی جھوٹی درخواست دے کر، مجبور و معذور بن کر خوراکی کی معافی کے طلب گار نہ بنیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ جن لوگوں نے دورانِ تعلیم خوراکی معاف کرواکے خوش ہوئے وہ آج بھی مفت کھا کر خوش ہوتے ہیں اور مفت خوری کی فہرست میں اپنے آپ کو شامل رکھتے ہیں۔ خواہ وہ کتنے ہی تعلیم یافتہ اور باشعور کیوں نہ بن گئے ہیں، وہ مفت مال حاصل کرنے میں ایسے دوڑ لگاتے ہیں جیسے اِس ماہ میں پولیٹیکل افطار پارٹی میں لوگ ٹوٹ پڑتے ہیں۔
خواہ آپ کتنا ہی کم کیوں نہ کماتے ہوں، اگر آپ نے ایک فیصد بھی دینے کا ارادہ کرلیا تو مجھے اللہ کی ذات سے امید ہے کہ وہ ہم سب کو جلد ہی خودکفیل بنا دے گا۔اور ہمارے اندر لینے اور جمع کرنے کے بجائے دینے والا بنا دے گا۔ نہ ہمارے گھر سے برکت اٹھے گی اور نہ ہی بیماری یا دوسری آزمائشوں میں مبتلا ہوں گے۔ ان شاء اللہ
زکوٰۃ و صدقات کے پہلے مستحق آپ کے اپنے محلّہ اور گاؤں والے ہیں، پہلے اُنہیں خودکفیل بنائیے، اُس کے بعد بتدریج لوگوں کی امداد کیجیے۔ بلکہ اُنہیں خود کفیل بنائے اور اپنے ادارے کو ضرورایک فیصداپنے مال میں سے دیجیے خواہ آپ صاحب نصاب ہوں یا نہ ہوں۔
فیروزہاشمی،نئی دہلی