Friday, February 24, 2023

وقت پر قدر کریں

 وقت پر قدر کریں

گزشتہ کچھ دنوں سے ٹیلی ویژن پر دو نئے اینکر دکھائی دے رہے ہیں جو بچوں کو اسکول بھیجنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ یہ دونوں کوئی پروفیشنل اینکر نہیں ہیں۔ جی ہاں ایک ہیں ہمارے ملک کے عزت مآب  وزیر اعظم جناب اٹل بہاری واجپئی اور دوسرے مرکزی وزیر برائے ترقی انسانی وسائل ڈاکٹرمرلی منوہر جوشی۔ ہندوستانی تعلیم کے شاندار پانچ سال کی اہم کامیابیوں میں یہ بھی شامل ہیں کہ ۶؍سے ۱۴؍ سال کی عمر کے تمام بچوں کی تعلیم کو مفت اور لازمی بنانے کے لئے آئین میں ترمیم کی گئی ہے۔ تعلیم ہر فرد کے لئے ضروری ہونی چاہئے، اس کے ساتھ ہی ساتھ وسیلہ بھی اور روزگار بھی۔تعلیم عقل و شعور کو بیدار کرنے کے لئے بے شک ضروری ہے ساتھ ہی عصری تعلیم بھی تاکہ پڑھ لکھ کر بے روزگاری میں اضافہ نہ ہو جو کہ کرپشن کا بھی سبب بنتا ہے۔ جتنے جاہلوں سے ملک کو نقصان ہوتا ہے اس کے کہیں زیادہ پڑھے لکھے بے روزگاروں سے ہوتا ہے۔ کیوں کہ جب انہیں ان کی سطح کا کام نہیں مل پاتا تو یہ کوئی اور گھریلو کام کرنے میں ہچکچاتے ہیں اور گھر اورمعاشرہ کے لئے بوجھ بنے رہتے ہیں حالانکہ ہر پیشہ کو اپنانے کے لئے تعلیم کی ضرورت ہے۔ بغیر معلومات کے کسی بھی کام کو پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچایا جاسکتا۔

ملک اور عوام کے مفاد میں ابتدائی اور ثانوی درجہ کی تعلیم سب کے لئے ضروری ہونی چاہئے۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے داخلہ قابلیت کی بنیاد پردیا جائے نہ کہ دولت کی بنیاد پر۔ کسی بھی حالت میں دولت دے سکنے کی صلاحیت رکھنے والے درخواست دہندہ کی طرف دھیان نہیں دینا چاہئے۔کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ امیر خاندان سے آنے والے طلباء ہی قابل ہوتے ہیں اور وہی کامیاب ہوسکتے ہیں۔ اعلیٰ مقام حاصل کرنے والے نچلے درمیانہ طبقے سے بھی آسکتے ہیں اور غریب خاندان سے بھی۔ داخلہ کے لئے بھی اور فیس فنڈز کے بارے میں بھی پالیسی ایسی ہونی چاہیے۔ جو قابلیت کی بنیاد پر داخلہ کے حقدار ہیں، ان کو اس وجہ سے محروم نہ کردیا جائے کہ وہ مطلوبہ رقم ادا نہیں کرسکتے۔ اگر مالی طور پر کمزور خاندان کے طلباء قابل اور اہل ہوں تو ان کو حکومت کی جانب سے تعلیمی اخراجات کو پورا کرنے کے لئے وظیفہ دیا جانا چاہئے اور فیس حکومت کی جانب سے ادا کیا جانا چاہئے تاکہ ملک کے قابل اثاثہ کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکے۔ حکومت کو چاہئے کہ نوجوانوں کی قابلیت سے فائدہ اٹھائیں۔ آج بھی کئی نوجوان ایسے ہیں جو روزمرہ کے آلات تیار کر رہے ہیں جن کی مدد سے وہ کام پہلے کے مقابلے میں کافی کم خرچ اور کم وقت میں انجام دیئے جاسکتے ہیں۔ حکومت کو ایسے نوجوانوں کی ہمت افزائی کرنی چاہئے۔ گزشتہ چند سالوں میں کئی ایسی خبریں آئیں جن میں ان لوگوں کی صلاحیتوں کو اب تسلیم کیا گیا اور ایواڈ دیا گیا جن کی عمریں اب ساٹھ سال کو تجاوز کر چکی ہیں۔ انہوں نے نوجوانی اور جوانی غیر ملکوں میں گزاری اور ان کی صلاحیتوں سے غیر ملکوں نے فائدہ اٹھایا۔ یہ اچھی بات ہے کہ ہمارے ملک کے ہونہار نوجوان کی کارکردگی کو غیر ملکوں میں قبول کیا جاتا ہے لیکن ان کی قابلیت اور صلاحیت کوخود ہمارا ملک بعد میں کیوں تسلیم کرتا ہے؟…ضرورت ہے کہ ہم اپنے ہونہاروں کی قابلیت و صلاحیت کو وقت پر تسلیم کریں، ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائیںاور ملکی کارکردگی کو بہتر بنائیں۔

نوجوانوں کی قابلیت کو علاقائی سطح پر بھی بہتر اور کارآمد بنانے کی ضرورت ہے۔ جن قصبوں اور گائوں میں کوئی ایجوکیشنل سوسائٹی نہیں ہے وہاں کے ذی شعور فرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ پہلے ایک ایجوکیشنل سوسائٹی قائم کریں۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ زکوٰۃ کا اجتماعی نظم کریں اور اس کے لئے بھی گائوںاور قصبہ کی سطح پر زکوٰۃ فنڈ قائم کریں۔ زکوٰۃ کے مصارف کے زیادہ حقدار وہ نوجوان ہیں جنہیں تعلیم کی ضرورت ہے اور وہ ذہین اور باصلاحیت نوجوان جو غربت کی وجہ اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکتے ہیں، پہلے ان کی مدد کیجئے۔  جب تک یہ نوجوان تعلیم حاصل کر کے اہل نہ ہوجائیں تب تک انہیں زکوٰۃ فنڈ سے تعاون کیا جائے اور جب اہل ہو جائیں تو وہ اپنی آسانی کے اعتبار سے زکوٰۃ فنڈ سے لی گئی رقم واپس کریں تاکہ فنڈ برقرار رہ سکے اور اس فنڈ سے ضرورت مند استعمال کر کے اپنے آپ کو قابل اور اہل بنا سکیں۔ ہمیں امید ہے کہ ایجوکیشنل سوسائٹی اوراجتماعی زکوٰۃ فنڈ کا قیام مسلمانوں کی تعلیمی ضرورت کو پورا کرنے میں کافی معاون ثابت ہوگا۔ 

ایجوکیشنل سوسائٹی اور زکوٰۃ فنڈ اپنی سہولت کے اعتبار سے کم سے کم دس کلو میٹر کے احاطہ میں ایک ہونا چاہئے۔ اگر کسی گائوں میں مسلمانوں کی تعداد کم ہے تو پچاس کلو میٹر کے اندر کئی گائوں کو ملا کر ایک ایجوکیشنل سوسائٹی اور زکوٰۃ فنڈ بنایا جا سکتا ہے۔ ایجوکیشنل سوسائٹی کے لئے کم سے کم چار اور زیادہ سے زیادہ آٹھ افراد نگراں وکارکن ہو سکتے ہیں۔ ان میں نصف پچیس سے پچاس سال کے درمیان ہو اور نصف پچاس سال سے زائد کے ہوں۔ ایجوکیشنل سوسائٹی کے تحت ایک چھوٹی سی یا اپنی سہولت اور ضرورت کے اعتبار سے لائبریری قائم کریں جس میں اپنی سہولت اور ضرورت کے اعتبار سے اخبار و رسائل یا کتابیں رکھیں۔

گائوں کا ہر خاندان اس کا ممبر ہو اورجس خاندان کی آمدنی ماہانہ تین ہزار روپے یا سالانہ چھتیس ہزار روپے(Rs. 36,000/-)یا اس سے زائد ہو تو وہ ایجوکیشنل سوسائٹی کو ماہانہ ایک سو روپے یا سالانہ بارہ سو روپے ادا کرے۔ بہتر یہی ہے کہ ماہانہ ایک سو روپے ادا کرتا رہے۔ جس خاندان کی آمدنی ماہانہ تین ہزار روپے سے کم اور پندرہ سو روپے سے زیادہ ہو یا سالانہ چھتیس ہزار روپے سے کم لیکن اٹھارہ ہزار روپے سے زیادہ ہو وہ کم سے کم ماہانہ پچاس روپے اور سالانہ چھ سو روپے ایجوکیشنل سوسائٹی کو ادا کرے۔  

حاصل شدہ رقم  ایجوکیشنل سوسائٹی کی امانت ہوگی جسے تعلیمی اغراض، اخبارات و رسائل یا رکھ رکھائو پر خرچ کیا جائے گا۔ اس کے رکھ رکھائو کی ذمہ داری نوجوان (بیس سے تیس کے مابین عمر) کو سونپی جانی چاہئے اور انہیں یہ ذمہ داری بلا معاوضہ ادا کرنی ہوگی۔ نوجوانوں کے تعلیمی اوقات میں یعنی جس وقت وہ اسکول یا کالج جاتے ہوں اس وقت لائبریری کھولنے اور بند کرنے کی ذمہ داری بزرگوںکو سونپی جاسکتی ہے۔ اس وقت بزرگ حضرات استفادہ کر سکتے ہیں۔ 

اسی ضمن میں کیریئر گائیڈنس کا بھی انتظام کیا جاسکتا ہے۔ جس میں ملک و بیرون ملک میں روزگار کے مواقع سے متعلق فارم اور معلومات مہیا کرائے جائیں۔ اس کی فیس پانچ سے دس روپے کے درمیان صرف امیدوار سے وصول کی جاسکتی ہے۔ ویسے کیریئر گائیڈنس کا کام تھوڑا مشکل ہے اس لئے اس کام کو ضلعی سطح پر یا بہتر ہے کہ صوبائی سطح پر انجام دیا جائے تو زیادہ کارآمد ثابت ہوگا۔ علاقائی ایجوکیشنل سوسائٹیوں کو ان سے رابطہ رکھنا چاہئے۔

اجتماعی زکوٰۃ فنڈکی ضرورت ہر گائوں یا قصبہ میں ہے۔ اس سے مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی پسماندگی دورکرنے میں کافی مدد ملے گی۔ اس فنڈ سے سب سے پہلے ضرورت مند طلباء کو تعاون دیا جائے تاکہ وہ اپنی تعلیمی ضرورت کی تکمیل کرسکیں۔ یاد رہے کہ ابتدائی تعلیم کا بندوبست حکومت کی جانب ہے اس میں صرف ذمہ داروں کو احساس جگانے اور رغبت دلانے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیجیں۔ اگر ابتدائی اور ثانوی سطح پر کوئی دقت ہے تو اس کو سوسائٹی کے ممبران تعلیمی اداروں کے ذمہ دار سے مل کر حل کرسکتے ہیں۔ بارہویںتک کی تعلیم حکومت کی جانب سے مفت فراہم کی جارہی ہے یا بہت ہی معمولی خرچ پر۔ سوسائٹی کو اس بات کا علم ہونا چاہئے کہ ان کے علاقے میں ضرورت مند اور باصلاحیت طالب علم کون ہے؟ ان کی ضرورت تعلیمی فیس کی ہوتی ہے۔ ان کو اس شرط کے ساتھ رقم دی جائے کہ جب وہ اہل ہو جائیں گے تو یہ رقم واپس کریں گے۔ لینے والے طالب علم اور گارجین حضرات کو بھی اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ آج وہ جس زکوٰۃ کی رقم کو لینے کے حقدار ہیں کل جب وہ کود کفیل ہو جائیں گے تو ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ اللہ کا شکر ادا کریں اور یک مشت نہ سہی تھوڑا تھوڑا کرکے بھی وہ رقم لوٹادیں تاکہ موجودہ مستحق طلباء اس سے استفادہ کرسکیں۔ 

اگر پندرہ سو روپے سے کم آمدنی والے افراد ہوں تو انہیں بغیر مالی تعاون کے سوسائٹی سے جوڑا جائے۔ انہیںمطالہ کی ترغیب دی جائے۔ ان کی مالی حالت بہتر بنانے کے بارے میں تعاون کیاجائے ۔ اگرکوئی فرد مالی کمزوری کی وجہ سے بزنس نہیں کر پارہا ہے تو اسے اس کے پسند کا کام جسے وہ بخوبی انجام دے سکتا ہو، زکوٰۃ فنڈ سے مالی تعاون دے کر شروع کرادیں۔ اس بارے میں چار پانچ افراد مل بیٹھ کر مشورہ کریں اس فرد کے قابلیت کا جائزہ لیں۔ مشورہ میں اسے بھی شامل کریںاور اس کی پسند کا کم شروع کرائیں۔ تعلیمی اور شعوری طور پر ہر فرد کو اس کا بات احسا س ہونا چاہئے کہ آج وہ کس قابل ہے اور اسے کس چیز کی کتنی ضرورت ہے۔ اگر آج اس کی مالی حالت کمزور ہے تب تو وہ زکوٰۃ فنڈ سے رقم حاصل کرے، اس کا حق ہے۔لیکن جیسے ہی اس کی مالی حالت بہتر ہو اور اس حالت میں ہو کہ اس کی طبیعت اس رقم کو لوٹا دینابہترسمجھتا ہو تو لوٹا دینا چاہئے ورنہ جب وہ زکوٰۃ دینے کا اہل ہوگا تب اس فنڈ کو زکوٰۃ ادا کرے گا۔ اگر خدا نہ خواستہ وہ محنت کرتا رہا  اور اس قابل نہ ہو سکا کہ وہ زکوٰۃ فنڈ سے حاصل کردہ رقم نہ لوٹا سکا تو کوئی حرج نہیں کیوں کہ وہ اس وقت زکوٰۃ لینے کا مستحق ہے۔ محنت کا اجر اللہ دے گااور محنت کے بدلے میں اللہ تعالیٰ اس کی تنگی دور کرے گا۔

تقریباً ہر گائوں میں ایسے افراد ہیں جو سالانہ خاص طور رمضان شریف کے موقع پر زکوٰۃ حاصل کر کے جمع کر لیتے اور اسی سے اپنا کھانا خرچہ پورا کرتے ہیں۔ ان میں سے جو افراد و خواتین تندرست و توانا ہوں ان کو کام کی طرف راغب کرایا جائے اور بتایا جائے کہ ان کا یہ عمل بہتر نہیں ہے ایسے افراد کو انفرادی زکوٰۃ نہ دی جائے بلکہ زکوٰۃ فنڈ سے ان کے لئے کاروبارکرایا جائے۔ نادار لیکن صحت مند عورتوں کے لئے بھی گائوں میں کئی کام ہیں جسے وہ کرکے اپنی محنت کی اجرت سے زندگی بہتر بنا سکتی ہیں۔ زکوٰۃ لے کر اپنا کھانا خرچہ پورا کرنے سے کہیں یہ بہتر عمل ہوگا۔ جو نادار و صحت مند عورتیں زکوٰۃ مانگتی پھرتی ہیں کم از کم انہیں اتنا کام تو ضرور آتا ہے کہ وہ گھریلو کام کاج کی ملازمت مالدار گھرانے میں حاصل کرسکیں۔ گھر کے جھاڑو پوچھا سے لے کر بچوں و بزرگوںکی دیکھ بھال اور گھر باغ کی دیکھ بھال وغیرہ کا کام بخوبی انجام دے سکتیں ہیں۔ اور یہ آمدنی ان کی محنت کی آمدنی ہوگی۔ نادار و صحت مند مرد و عورتیں مرغی، بکری اور دوسرے گھریلو جانور پال کر بھی اپنی خانگی زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ یہ عمل ان کے زکوٰۃ لینے سے بدرجہ اولیٰ بہتر ہوگا۔ یہ عمل بظاہر کمتر ہے ہے لیکن در در بھیک مانگنے یا زکوٰۃ و خیرات طلب کرنے سے بہت بہتر ہے۔ اللہ کی ذات سے امید رکھنی چاہئے کہ ان کے اس نیک اور حلال عمل سے جلد ہی خود کفیل و مالدار بنا دے گا۔

اس سلسلے میں ہماری درخواست مساجد کے ائمہ کرام سے ہے کہ وہ جمعہ کے خطبہ میں مختصراً سماجی اور معاشرتی پہلو پر اسلامی نقطہ نظر سے اصلاح فرمائیں۔ میں نے بہت سے ائمہ کرام کو خطبہ میںاس طرح کے جملے کہتے ہوئے سنا کہ ’’ہمارے میں معاشرے میں فلاں فلاں خرابی ہے۔ ہماری قوم کے بچوں کو وضو کرنا نہیں آتا۔ ہماری قوم کے بچوں کو کلمہ نہیں آتا۔ ہماری قوم کے بچوں کو نمازادا کرنا نہیں آتا۔ ہماری عورتوںکوغسل جنابت نہیں آتا۔‘‘ وغیرہ۔ یہ شکایتیں ہیں۔ یہ اصلاح نہیں ہے۔ آپ انہیں ان اعمال کو درستگی سے ادائیگی کے طریقے بتائیے۔ منفی انداز کو مثبت انداز میں تبدیل کیجئے۔ امید ہے کہ اس طرح لوگ دینی امور کی طرف مائل ہوںگے اور سیکھنے کی کوشش کریں گے۔ اگر آپ چھوٹی چھوٹی معلومات ہر جمعہ میں دس پندرہ میں بتائیں گے تو یہ عوام کے لئے زیادہ فائدہ مند ہوگا۔

………محمد فیروزعالم ایڈیٹر ماہنامہ  ’’نئی شناخت‘‘ نئی دہلی    اگست ۲۰۰۳


No comments:

Post a Comment

عید یومِ محاسبہ و معاہدہ

 ⬅️’’عید‘‘  یومِ محاسبہ و معاہدہ ➡️ عمومی طور پر دنیا میں مسلمانوں کے تین تہوار منائے جاتے ہیں، جو کہ خوشی، معاہدہ، محاسبہ، ایثار وغیرہ کا پ...