Friday, November 3, 2023

بیت المال، اسپتال اور نیوز چینل کیوں ضروری؟



گزشتہ سال میں جاری لاک ڈاؤن نے لوگوں کو اپنے گھروں میں قید رکھا تھا۔ گاہے بگاہے مہلت ملتی رہی اور اب تھوڑی چہل پہلی ہوئی ہے، لیکن اس عرصہ میں ملکی معیشت اور گھریلو پیداوار کی رفتار تھم سی گئی ہے۔ اب کچھ پروڈکشن کا سلسلہ شروع ہوا تھا کہ غذائی قانون نے کسانوں کو آندولن کرنے پر مجبور کر دیا۔ ایک طرف نوکری پیشہ اور درمیانہ طبقہ کی مالی حالت نہایت ہی نازک بن چکی ہے۔ وہیں دوسری طرف غیر ضروری پابندی نے آپسی تال میل میں بھی دراڑ پیدا کر دیا ہے۔ ایسی حالت میں بیت المال، سپر اسپیشلیٹی ہوسپیٹل  اور ٹیلی ویژن چینل کے بارے میں واویلاکرنا کس حد تک درست ہے؟ اور ان کا قیام اِسی وقت کیوں ضروری ہے؟اس وقت جو ہمارے اندر خامیاں ہیں اور غلط قسم کے سطحی رائے اور مشوروں کی بدولت ہم اپنا سرمایہ اور صحت دونوں کو تباہ کر رہے ہیں۔ ان میں سوشل میڈیا کے ذریعہ پھیلائے گئے کئی قسم کے اقوال و آراء اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک تازہ مثال ملاحظہ فرمائیں

اس بار زکوٰۃ کے پیسوں سے مسلمانوں کو کم سے کم تین کام کی بنیاد رکھنی چاہیے۔

۱۔ بیت المال کی بنیادبیت المال میں شہر کی زکوٰۃ کا پورا پیسہ اکٹھا ہو اور اس کے دو حصے ہوں۔ پچھتّر فیصد حصے میں سے بےروزگار لڑکوں کو دھندے شروع کرنے میں مدد دی جائے، بیوہ مسکین کو راشن دیا جائے، پچیس فیصد ان بچے بچیوں پر خرچ کیا جائے جو پڑھائی میں ہوشیار ہیں لیکن غریبی کی وجہ سے پڑھ نہیں پاتے ان کو زکوٰۃ فنڈ سے پڑھایا جائے۔ اور ڈاکٹر انجینئر پروفیسر بنا کر جماعت کا تھینک ٹینک بنایا جائے۔

۲۔ مسلمانوں کا خود کا ہاسپیٹل ابھی کے معاشرے میں ہر ضلع، ہر راجیہ میں مسلمانوں کا کم سے کم ایک خود کا ملٹی سوپر اسپیشلیٹی ہاسپیٹل ہو، جس میں غریبوں، مسکینوں کا مفت علاج ہو اور ہاسپیٹل نو لاس نو پروفٹ(No Loss, No Profit) میں چلے، قوم کی خدمت ہو۔۔۔

۳۔مسلمانوں کا خود کا نیوز چینل مسلمانوں کا خود کا ایک نیوز چینل ہو  تاکہ مسلمان کسی بھی نیوز چینل پر منحصر نہ ہو اور مسلمانوں کے خلاف فیک نیوز نہ چلائی جا سکے، اس چینل میں سچائی کے ساتھ نیوز دکھائے تاکہ ہمارے اوپر لوگ یقین کریں۔ اگر یہ مناسب لگے تو اِس کو ہر قصبے، ضلع راجیہ تک پہنچائے اور اللہ کی مدد، اللہ سے مانگ کر قوم کی خدمت کرے۔قوم کا سوچا جائے قوم کو آگے بڑھایا جائے۔۔۔۔

سوال یہ مشورہ کس کا ہے؟

جواب نامعلوم شخص کا ہے۔ لیکن مشورہ اچھا ہے۔۔۔۔

واٹس ایپ یونیورسٹی پرمذکورہ مشورہ گھوم رہا ہے۔ ایک بار پڑھ کر کوئی بھی اسے کہے گا ’’مشورہ اچھا ہے‘‘ ۔ 

مجھے بھی اچھا لگا۔ میں بھی کہہ رہا ہوں، ’’مشورہ اچھا ہے‘‘۔  

لیکن سوال ہے، اِس پر عمل کرے گا کون؟ موجودہ دور میں مسلم قوم کے اندر دو صلاحیتیں بدرجہ اَتم موجود ہے۔ ایک مانگنے کی صلاحیت اور دوسرے دینے کی صلاحیت۔ اور اِن دونوں صلاحیتوں کا درست استعمال نہیں ہو رہا ہے۔ جس کی وجہ سے قوم کی جو بھی حالت ہے، وہ آپ سے مخفی نہیں ہے۔ دینے اور لینے کے درمیان سب سے اہم کام اس کا صحیح استعمال بھی ہے۔ یعنی آج کے دور میں کہیں تو ’’مینجمنٹ‘‘۔  یعنی زکوٰۃ کو دینے کا صحیح طریقہ اور وصولنے کا صحیح طریقہ۔ اس کے بعد اُس کا صحیح استعمال۔ اگر صحیح استعمال ہوتا رہتا تو کیا اوپر بیان کئے گئے وہ سارے کام نہیں ہو گئے ہوتے؟ بالکل ہو جاتے۔ اور یہ کہ صرف مسلم قوم میں بلکہ دوسری قوموں سے بھی ہاتھ پھیلانے کی روایت ختم ہو جاتی، یا بہت حد تک کم ہوجاتی۔ لیکن ہاتھ پھیلانے کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے۔ سب سے پہلا نمبر بیت المال کی بات کر لیجیے۔ ابھی تک کتنے گاؤں، قصبہ، شہر، ضلع میں آپ نے ایسا کیا ہے؟ کوئی نام بتائیں یا فہرست ہو تو لائیں۔ کہ وہ علاقہ خود کفیل ہے، کسی دوسرے سے کسی قسم کا چندہ نہیں لیتا۔ بلکہ اپنی زکوٰۃ اور چندہ کی رقم یا اشیاء دوسرے ضرورت مندوں کو دینے لائق بن گیا ہے۔ شاید ایک دو علاقہ ایسا ہے، جسے آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں کہہ سکتے۔ دوسرے نمبر پر خود کا ہاسپیٹل، بلکہ ’’ملٹی اسپیشلیٹی سوپر ہاسپیٹل‘‘۔ بہت خوب۔ دیوانے کے خواب جیسا۔ اب تک قوم کے قائم کردہ جتنے بھی ہاسپیٹل میں میرا جانا ہوا، وہاں کا مینجمنٹ بھی ویسے ہی ہے جیسا کہ عمومیت سے آپ لوگ جانتے ہیں یا سامنا کر چکے ہیں۔ وہاں بھی اصول و انتظام کی کمی ہے۔ جسے درست کرنے کے بعد ہی ’’ملٹی اسپیشلیٹی سوپر ہاسپیٹل‘‘ کا سوچنا یا لائحہ عمل تیار کرنا مناسب ہوگا۔ تیسرے نمبر پرمسلمانوں کا خود کا ’’نیوز چینل‘‘ یہ تو کسی بھی صورت میں نہیں ہو سکے گا۔ کیوں کہ جو بھی ایسا سوچے گا اور زکوٰۃ کا پیسہ لگائے گا وہ ناکام ہوگا اور آپسی رسہ کشی بڑھے گی۔ مسلمانوں کے مختلف خیالات کی بنیاد پر مسلک بن گئے ہیں اور پھر کچھ عرصہ بعد ہی مسلکی بنیاد پر یہ کام چل پڑے گا۔ جس سے سرمایہ کی بربادی تو ہو سکے گی، کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلے گا۔ جس قسم کے خیالات کی جھلک ’’مسلمانوں کا خودکا‘‘ سے دکھائی دیتا ہے وہ ایک محدود طبقہ میں رہے گا۔ اس چینل کا کوئی ذریعہ آمدنی نہیں ہوگا، اور ہر سال زکوٰۃ کی رقم سے اس میں پیسہ لگا کر چند افراد اس چینل کے ذریعہ مزید زکوٰۃ خور بن جائیں گے۔ جس سے مسلمانوں کا کچھ بھلا ہونے والا نہیں ہوگا۔ تنگی کی حالت کسی کے ساتھ بھی ہو سکتی ہے، بیت المال لوگوں کو خود کفیل بنانے کا ذریعہ ہونا چاہیے نا کہ خود غرض بنانے کا۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں خودغرضی بڑھتی جارہی ہے۔ بیمار ہونے کے بعد علاج و معالجہ ضروری ہے۔ لیکن کیا ہم وہ طریقہ نہ اپنا لیں کہ بیمار ہی نہ ہوں؟ جی ہاں ہم اپنی روزانہ کے طریقۂ کار کو سنت کے مطابق بہتر بنا سکتے ہیں۔ خود محاسبہ کریں کہ کون کون سا غلط طریقہ اپنا رکھا ہے اسے چھوڑیں اور کون کون سا ایسا کام جس کو کرنا ضروری تھا، اسے نبھائیں اور صحت مند زندگی گزاریں۔ اپنی بات کو پہچانے کے لئے میڈیا کی ضرورت ہیں لیکن ہماری بات میں دم ہونا چاہیے۔ کہاں گئے وہ دم دار لوگ؟ بتیس برسوں سے میں بھی میڈیا سے منسلک ہوں، اور میں نے کسی میڈیا میں اتنا دم نہیں دیکھا کہ وہ اپنی بات رکھ سکیں۔  تھوڑے ہی عرصہ میں افسروں کی چاپلوسی کرتے ہوئےاپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ مال و اسباب ہوتے ہوئے لاچاری کی زندگی گزارتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرونک میڈیا یا پھر سوشل میڈیا۔ یہ سب چند سکّے حاصل کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں کر پارہے ہیں۔ سوشل میڈیا تو اپنے دل کی بھڑاس مٹانے کے کام میں آرہا ہے۔ جس کو جو جی میں آرہا ہے، کر رہا۔ ویڈیو بنا رہا اور پھیلا رہا۔ ضرورت کے مشکل سے دس فیصد اور بلا ضرورت اور دل آزاری کے نوے فیصد۔ حالات بہتر کیسے ہو سکتے ہیں؟ گزشتہ ایک سال میں گھروں میں رہتے ہوئے بھی ہم کئی ایسے ضروری کام کر سکتے تھے، جسے اب تک کرنے کے لئے ہم وقتی کی تنگی کی شکایت کیا کرتے تھے۔ ہم نے اپنے خالی وقت کا کتنا مثبت استعمال کیا؟  ہم اگر اس وقت کا بہتر استعمال کرتے تو مستقبل کے لئے بہتر لائحہ عمل مرتب کر سکتے تھے اور بہت سے کام اس خالی وقت میں بھی کر سکتے تھے اور اب بھی کر سکتے ہیں۔ پڑھنے لکھنے کا سلسلہ اکثر انہیں ایام میں کئے جاتے رہے ہیں۔ تاریخ میں بہت ساری شخصیتوں کے نام آتے ہیں جنہوں نے قید و بند کی حالت میں مختلف قسم کے ایجادات اور معرکۃ الآراء تصنیفی کام انجام دیئے۔ اور لوگوں کے لئے بہتری کا ذریعہ بنے۔ اس وقت سب سے پہلا کام اپنا خود کا محاسبہ کرنا بہت ضروری ہے جیسے کہ انہوں نے کون کون سے ایسے کام کئے جسے نہ کرتے تو زیادہ بہتر حالت میں ہوتے۔ یا کون کون سے ایسے کام کئےجس کی وجہ سے مالی تنگی میں مبتلا ہوئے۔ روزارنہ کے رہن سہن میں کس قسم کی غلطیاں کی جس کی وجہ سے بیماری میں اضافہ ہوا اوروہ بیماری اُن کی موت کا سبب بنا۔ اگر ہم ان باتوں پر غور کرتے ہیںتو پتا چلتا ہے کہ بہت ساری خامیوں اور کمیوں میں ایک سب سے بُری بیماری کا نام ہے ’’لاپروائی‘‘۔ 

اگر ہم نے معاشرتی لاپرواہیوں کو چھوڑ دیا تو ہم صحت مند اور خودکفیل زندگی گزار سکتے ہیں۔ دوسری سب سے بڑی وجہ فضول خرچی۔ فضول رسموں اور نکاح کے سنت کو غیر سنت طریقے سے انجام دینے کے نتیجے میں مقروض اور مفلوک الحالی کے شکار ہو رہے ہیں۔ جہیز، بارات، مانگے کا کھانا جیسی رسموں نے بہنوں بیٹیوں کو خود کشی پر مجبور کر دیا ہے۔ احمد آباد کی عائشہ اس وقت تازہ مثال ہے۔ کیا ہم بیٹیوں کی پرورش اسی لئے کرتے ہیں کہ بڑی ہوکر یا تو خود کشی پر مجبور ہو یا غلط راستہ پر چل کر اپنی اور خاندان کو دنیا اور آخرت کے لئے رسوائی کا سبب بنے؟ وہ لوگ اپنے آپ کو نیک کار میں شمار نہ کریں جن کی وجہ سے معاشرہ میں اس طرح کی غلط طریقے اور رسمیں رائج ہو رہی ہیں۔ جن کی سوچ یا جواب یہ ہے کہ ’’اتنا تو چلتا ہے‘‘ ان سے کہنا ہے کہ پھر ’’بلبلا کیوں رہے ہو؟‘‘

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے وَأَنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ۛ وَأَحْسِنُوا ۛ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (سورۃ البقرہ آیت ۱۹۵) 

اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو۔ اور سلوک و احسان کرو اللہ تعالیٰ  احسان کرنے والے کو دوست رکھتا ہے۔اس آیت کا ترجمہ اور تفسیر پڑھنے کے بعد یہ نتیجہ بھی سامنے آتا ہے کہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا کیا کہلاتا ہے۔ احسان کا مطلب یعنی اچھے کام کرو بے شک اللہ تعالیٰ اچھے کام کرنے والے کو پسند کرتا ہے۔ اللہ کی پسندیدہ کام ہی احسان کہلاتا ہے۔لیکن جب محاسبہ کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ ہماری بیماری کی وجہ ہماری خود کی لاپروائی ہے۔ نہ وقت پر کھانا پینا، نہ وقت پر کام کرنا، نہ وقت پر سونا۔ نہ اور دیگر کاموں کو اُس کے اپنے وقت پر انجام دینا ہماری پریشانی اور مفلوک الحالی کے اسباب ہیں۔ ہم اسے درست کرکے اپنی صحت اور مالیت دونوں کا صحیح استعمال کرسکتے ہیں۔ نکاح کو شادی میں بدل کر فضول رسموں کو فروغ دینے والے اپنے آپ کو حاجی، نمازی تو ہو سکتے ہیں لیکن انسانیت کے لئے بھلا کرنے والے نہیں ہو سکتے۔حالات چاہے جو بھی ہوں، ہمیں یہی حکم دیا گیا ہے

وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (سورہ آل عمران، آیت ۱۳۹)

تم نہ سستی کرو، نہ غمگین ہو۔ تم ہی غالب رہوگے اگر ایمان دار ہو۔اگر ہم ایمانداری سے کام نہیں کریں گے اور ہماری زندگی میں جھوٹ شامل ہوگا توہم کبھی بھی غالب نہیں ہو سکیں گے۔ کسی بھی طرح کی پریشانی پر ہمارا غلبہ نہیں ہو سکے گا۔

 ازفیروزہاشمی

(مضمون نگار نئی شناخت، نئی دہلی کے ایڈیٹر اور ہیلتھ کنسلٹینٹ ہیں)

9811742537    10th March 2021


No comments:

Post a Comment

عید یومِ محاسبہ و معاہدہ

 ⬅️’’عید‘‘  یومِ محاسبہ و معاہدہ ➡️ عمومی طور پر دنیا میں مسلمانوں کے تین تہوار منائے جاتے ہیں، جو کہ خوشی، معاہدہ، محاسبہ، ایثار وغیرہ کا پ...