Saturday, March 23, 2024

عید کی خریداری

 عید کی خریداری

جوں جوں عید قریب ہوتی جارہی ہے لوگوں میں خریداری کا رُجحان بڑھتا جاتا ہے اور جلد بازی کی جاتی ہے، کیوں کہ ریڈی میڈ کپڑے بازار سے کم نہ پڑ جائیں، یا سلائی کرنے والے انکار نہ کردیں۔ جب کہ اس موقع پر کپڑے، سلائی، خوردنی اشیاء کی سپلائی بڑھانی بہت ضروری ہوتی ہے۔ عام دنوں کے مقابلے اس ماہ میں کھانے پینے کا چلن کچھ زیادہ ہی ہو جاتا ہے۔ ایسے موقع پر جہاں لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے اور بتاتے ہیں اور خریداری میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں، وہیں دوسری طرف لوگوں کے عجیب و غریب مشورے کئی لوگوں کو مزید اُلجھن و پریشانی میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ خواہ پورے گیارہ مہینے مستحب مسائل، سنت و نوافل، مسواک، توتھ پیسٹ وغیرہ کے بارے میں کوئی دقت یا فکر نہیں ہوتی؛ یہاں تک کہ حلال و حرام کی بھی پروا نہیں ہوتی۔ …کتنے فرائض چھوٹے، …کتنی سنتیں چھوٹیں  …یا پامالی ہوئیں،  …کوئی غم نہیں۔  …لیکن اس ماہ میں سب سے زیادہ فکر ہوتی ہے۔

آخر کیوں؟

یاد رکھیے سارے اصول ویسے ہی اِس ماہ میں بھی رہتے ہیں، صرف نیکی کا اجر ستر گنا سے سات سو گنا ہو جاتا؛ اس کا بہر حال ہمیں فائدہ اٹھانا چاہیے،  …لیکن عام دنوں میں فرائض کو چھوڑنے کا گناہ کم نہیں ہو جاتا  …اور نہ ہی اُس کا بدل رمضان میں کئے گئے عبادت کے بدلے بھرپائی ہو پاتی ہے۔  …سب سے زیادہ تو حیرت مشورے پر ہوتی ہے۔ اور آج کل سوشل میڈیا اِس کام کا اہم ذریعہ ہے۔

۲۲؍مارچ ۲۰۲۳ء کی صبح ایک ویڈیو پیغام موصول ہوا جس میں اسرائیلی کھجور کے بائیکاٹ کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔

 بظاہر یہ ایک عمدہ پیغام ہے۔ 

لیکن جن کمپنیوں کے نام گنوائے گئے ہیں، اُن کے بارے میں واقفیت ہمارے کتنے فیصد لوگوں کو ہے؟

کیا اسرائیل ہمیں اَن برانڈیڈ بوریوں میں بھر کے کھجور نہیں بیچ سکتا؟

اور ابھی تازہ مشورہ ہے

’’عید کی خریداری اپنوں سے ہی کریں

اپنا کھائے گا زکوٰۃ نکالے گا

غیر کھائے گا ہتھیار نکالے گا‘‘

یعنی کہ اب سارا کام چھوڑ کے ہم یہ غور کرنے پر لگ جائیں کہ یہ جو کھانا کھا رہے ہیں، یہ کس کے ذریعہ ہم تک پہنچا ہے؟

جب کہ ہمیں سب سے پہلے اِس امر پر غور کرنا چاہیے کہ ہم علمی اعتبار سے کتنے چاق و چوبند بن چکے ہیں کہ ہم اُن کمپنیوں کے پروڈکٹ کا بائیکاٹ کریں گے؟  …ہمارے گھروں میں ہماری خود کی بنائی ہوئی کتنی چیزیں ہیں؟  …کیا ہم اپنے گھروں سے اُن اشیاء کو نکالنے کے لئے تیار ہیں، جو اسرائیلی پروڈکٹ ہیں؟  …اگر ایسا نہیں ہے تو ایک منفی پیغام پر عمل کرتے ہوئے ہم ایک کے بدلے ستر گنا ثواب حاصل کرنے کا موقع بھی گنوا رہے ہیں۔  …

اور سب سے اہم یہ کہ ہم حلال کھارہے ہیں یا حرام۔

اس طرح کے پیغامات سے منفی ذہن تو تیار کیا جاسکتا ہے،  …الجھایا تو جا سکتا ہے لیکن غور و فکر کرکے مثبت طریقہ کار نہیں اپنایا جا سکتا۔  …شیطانی ذہن پر کام کرنے والوں نے ہمارے دماغ تک کو اپنے قبضہ میں کر لیا ہے۔  …ہمارے ہی لوگ منفی پیغامات کو پرموٹ بھی کر رہے ہیں۔  …کیا پہننا ہے؟  …کیا کھانا ہے؟  …کیا برتنا ہے؟  …اس پر ہم کبھی بھی غور نہیں کرتے،  …جب کہ غور کرنے کے لئے ہمارے پاس پورے گیارہ مہینے بھی ہیں، لیکن نہیں۔  …حلق میں ایک بوند پانی چلا جائے مسئلہ پوچھا جاتا ہے کہ روزہ ہوگا یا نہیں۔  ………لیکن حرام ہمارے کھانے میں کب شامل ہو گیا،  …اُس کا احساس تک نہیں۔  ………بعض کاروباری لوگوں جو کبھی سیٹھ تھے، کے بارے میں یہ بھی پتا چلا کہ اب وہ حج کرکے آ چکے ہیں،  …اب وہ اِس سیٹ پر نہیں بیٹھتے  …نہ ہی کاروبار کرتے ہیں،  …اب یہ کام اُن کا جانشین بیٹا ہے یا کوئی عزیز کرتا ہے۔ … یعنی کہ اکثر لوگوں کا کاروبار بھی غلط طریقے سے رہا اور عمر کے آخری حصہ میں حج کر لیا  …تو  …گویا سمجھ لیا کہ  …ساری حرام کاری معاف ہوگئی۔  …ہرگز نہیں۔  …غور کر لیجیے کہ ہم نے اگر حرام کاری کی ہے تو گویا ہم نے حرام کی کمائی سے ہی خود کی پرورش پائی ہے اور اپنے بچوں کی پرورش کی ہے۔  ………اور اس کا بدل عمرہ اور حج کبھی بھی نہیں ہو سکتا۔  ………جو لوگ بھی کلمہ گو ہیں اور اللّٰہ کو معبود مان چکے ہیں، اور مُحمَّد کو رسول اقرار کر کے تسلیم کر چکے ہیں، اُن کو چاہیے کہ اپنی زندگی میں اپنے سچے اور پکے مسلمان ہونے کا ثبوت پیش کریں؛ یعنی عملی نمونہ بنیں۔

اس کا عملی نمونہ پیش کرنے کا طریقہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے رسول مُحمَّد کے ذریعہ بتا دیا ہے۔

قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللہَ فَاتَّبِعُونِى يُـحْـبِـبْــكُمُ اللہُ وَيَـغْـفِـرْ لَكُمْ ذُنُـوبَـكُمْ  وَاللہُ  غَـفُورٌ رَّحِيمٌ

(آل عمران ۳۱)

اے نبی (محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم) کہہ دیجیے کہ اگر تم اللّٰہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللّٰہ تعالیٰ تمہیں محبوب رکھے گا، اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا۔ کیوں کہ اللّٰہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

اس آیت سے اللّٰہ کی محبت کا واجب ہونا ظاہر ہوتا ہے۔ یہاں تک کے اس کی علامتیں، اس کے نتائج اور بدلہ بھی واضح ہو جاتا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ اس کے تمام حالات میں اس کے قول و فعل میں دین کی بنیادوں اور اس کی شاخوں میں رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی پیروی ضروری ہے۔ تبھی اللّٰہ تعالیٰ ہمارے گناہوں کو بخشے گا۔ اگر ہم نے احکام خداوندی کو بروئے کار لانےمیںطریقہ رسول کو نہیں اپنایا تو ہمارے اعمال بے کار ہیں۔

ایک صحیح حدیث کے حوالہ سے ہمیں یہ بتا دیا گیا ہے کہ ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ اور کس طرح سے ہمیں ذمہ داریوں کا حساب دینا ہے۔ اگر ہم نے اس حکم کا بھی خیال نہیں کیا تو یقین جانیے کہ ہم یا آپ بہت زیادہ خسارہ اٹھانے والے ہیں۔ دنیا میں ذلیل و خوار ہوں گے، بلکہ آئے دن ہو رہے ہیں؛ اور آخرت بھی تباہ ہو جائے گی۔

عَـنِ ابْـنِ عُـمَـرَ رَضِيَ اللہُ  عَـنْـهُـمَـا عَـنِ النَّبِيِّ صلی اللہ عَـلَیْہِ وَسَـلم أَنَّهُ قَالَ أَلاَ كُـلُّـكُـمْ رَاعٍ وَ كُـلُّـكُـمْ  مَسْـئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ فَالأَمِـيـرُ الَّـذِي عَـلَـى النَّـاسِ رَاعٍ وَ هُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَ هُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ بَعْلِهَا وَ وَلَدِهِ وَ هِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُمْ وَالْعَبْدُ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ وَ هُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُ أَلا فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَ كُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ

 (صحیح مسلم)

سیدناابن عمر رضی اللّٰہ عنہما نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ تم میں سے ہرشخص حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا (حاکم سے مراد منتظم اور نگراں کار اور محافظ ہے) پھر جو کوئی بادشاہ ہے وہ لوگوں کا حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کا سوال ہو گا(کہ اس نے اپنی رعیت کے حق ادا کیے، ان کی جان و مال کی حفاظت کی یا نہیں؟) اور آدمی اپنے گھر والوں کا حاکم ہے اور اس سے ان کے بارے میں سوال ہوگا اور عورت اپنے خاوند کے گھر کی اور بچوں کی حاکم ہے، اس سے اس کے بارے میں سوال ہو گا اور غلام اپنے مالک کے مال کا نگراں ہے اور اس سے اس کے متعلق سوال ہو گا۔ غرضیکہ تم میں سے ہر ایک شخص حاکم ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعیت کا سوال ہو گا۔ ‘‘

ہماری آزمائشیں ہر دور میں ہوتی رہی ہیں؛ اور ہوتی رہیں گی۔ شکل و ہیئت چاہے جیسی ہو۔ بیماریاں آتی ہیں تو وہ ہمارے گناہوں کو کم کرنے کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ یا پھر اس آزمائش پر صبر کے بدلے آخرت میں اجردیا جائے گا۔ لیکن اگر ہم آہ و زاریاں کرتے رہے اور صبر کے امتحان میں ناکام ہوئے تو نہ دنیا میں ہمارے حالات اچھے ہونے والے ہیں اور نہ ہی آخرت میں اچھا ہونے والا ہے۔

ایک طرف جہاں گیارہ مہینے میں زبانی اور سوشل میڈیا کے ذریعہ مختلف موضوعات پر بحث و مباحثہ میں گزرتے ہیں اور ویسے اِس مبارک ماہ میں بھی ہو رہا ہے۔  …روزہ کا قضا،  …فدیہ دینا،  …زکوٰۃ و فطرہ کا نصاب کیا ہے؟  …کتنے دن کی تراویح پڑھنی ہے۔؟  …کتنی رکعتیں پڑھنی ہیں؟  …تہجد اور قیام اللیل کیا ہے؟  …تراویح پڑھی یا نہیں؟ …کہاں پڑھی؟  …کتنے دن کی پڑھی؟ وغیرہ

دوستو! اِن امور کا تعلق ہماری عبادات سے ہے۔ جس کے بارے میں جاننے اور سمجھنے کے لئے کتابیں، آڈیو، ویڈیو اور علماء کرام سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔  …لیکن اُس کے لئے ذوق و شوق کی ضرورت ہے۔  …اپنے ذوق کا مطالعہ کیجیے کہ ہم کیا چاہتے ہیں۔  …ہم گلی کے نکڑ پر اِس مسئلہ کو حل کرنا چاہتے ہیں۔  …جو کہ بارآور ثابت نہیں ہو رہا ہے۔ خود الجھے ہوئے ہیں اور دوسروں کو الجھا کر وقت خراب کر رہے ہیں۔

زندگی کا ایک دوسرا پہلو معاملات کا بھی ہوتا ہے،  …جس کے بارے میں اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے خوب اچھی طرح سے رہنمائی کر دی ہے۔  …اگر ہم نے انسانی معاملات و ضروریات کو سنت کے مطابق عمل میں نہیں لایا تو یقیناً پکڑے جائیں گے۔  …کیوں کہ اِن امور کا تعلق ہماری زندگی سے ہے۔  …ہم افطار کی دعوت کراکر عبادات کو تو بہتر بنا رہے ہیں،  …… لیکن جو وقت ہماہمی میں ضائع کر رہے ہیں وہ زیادہ نقصاندہ ہے۔  جب کہ ہمیں اُس وقت کو ذکر و اذکار میں گزار کر عبادات کو بہتر بنا سکتے ہیں۔  ……افطار کی دعوت عموماً لوگوں میں رابطہ کی غرض سے کیا جاتا ہے۔  ……لیکن اب اور بھی کئی دیگر مقاصد کے لئے استعمال میں لایا جا رہا ہے،  ……اور اس مقصد کو ہم آپ جیسے لوگ خوب سمجھتے ہیں۔ اس لئے اس پر غور کر لینا چاہیے کہ نیت کے مطابق ہی اِس کا نتیجہ بھی نکلنے والا ہے۔

اِنہی عبادات کے ساتھ انسانی معاملات کا سلسلہ بھی ہوتا ہے۔  ……

جس میں لوگوں سے لئے گئے قرض ادا نہ کرنا،…… 

پبلک پیلس یا راہ داری پر قبضہ جما لینا۔ ……

اسکول، عبادت گاہ وغیرہ کے آس پاس گندگی پھیلانا۔ ……

خصوصاً خود و نوش والی عبادات کے بعد۔ ……

ویسے بھی ہماری قوم کو کھانے پینے والی ساری حدیثیں یاد رہتی ہیں۔ ……

لیکن اُس کے ذریعہ ہونے والی معاشرتی بگاڑ پر اُن کا دھیان برسوں سے نہیں گیا ہے۔ ……اور نہ ہی دھیان دلایا گیا ہے۔…… 

’’دعوت قبول کرنا سنت ہے‘‘… لیکن کیا فرض کو چھوڑ کرکے؟ ……

یہاں تک کہ’’ فرضِ کفایہ‘‘ کو ادا کرنے کے لئے بھی کئی فرائض کو چھوڑا جاتا ہے،…

جیسے کہ جنازہ میں شرکت کرنا۔ ……اور اِس کے پیچھے لوگوں کے ذہن میں یہی بات رہتی ہے کہ ……

’’لوگ کیا کہیں گے‘‘ ؟ ……

نکاح کے مواقع پر بھی فضول کھانے کے پروگراموں کے ذریعہ فرائض کو طاق پر رکھ دیا جاتا ہے۔ ……

’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘ ……کھایا ہے تو کھلانا بھی پڑے گا۔ ……

آخر ہم نے کھانے اور کھلانے کا طریقہ سنت سے کیوں نہیں لیا؟ ……

زکوٰۃ و صدقات کا بھی یہی حال ہے۔ ……

قوم کے پاس اتنی دولت ہے کہ نہ ضرورت مندوں کو دروازے دروازے جانا پڑے اور نہ مدارس کو سفیر رکھنا پڑے۔ ……لیکن ایسا ہو رہا ہے۔ ……ہم میں ایسے لوگ ہیں کہ زکوٰۃ و صدقات دینے میں گریز کرتے ہیں اور مانگنے والے مانگ کر خوش ہوتے ہیں بلکہ اُسی کو آمدنی کا ذریعہ سمجھ لیا ہے۔ ……جبکہ زکوٰۃ و صدقات کے تقسیم کا مقصد غریب و مسکین کو خود کفیل بنانا ہے۔ …………نہ کہ سال بھر پیٹ بھرنے سامان کرنا۔

اتنی تمہید باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم معاملات میں سنت کو اپنائیں، 

لوگوں کو خود کفیل بنائیں؛ 

ہر اعتبار سے، خواہ روز مرہ کی ضروریات ہو یاتعلیمی مقاصد کو پورا کرنا یا صحت و خوردنی اشیاء کی فراہمی کا معاملہ۔ یا رشتہ داری کو مضبوط کرنے کا طریقہ۔ ……سنت کو اپنائیں، 

اللّٰہ کی رضا کے لئے عبادات و معاملات کو بہتر بنائیں۔ ……

ہم دیکھ رہے ہیں اکثر معاملات کی خرابی نے ہمیں ذلت کے دہانے پر پہنچایا۔ ……معاملاتی طور پر ہمیں انسانی روابط کو فروغ دینا ہے نہ کہ بائیکاٹ اور منفی باتیں اور  رویّہ کو فروغ دے کر اپنے کو کنارہ کش کرلینا؛ ……

یہ زندگی کی علامت نہیں ہے۔ ……

ہمیں اپنی شراکت (کنٹربیوشن) پیش کرنے پر غور کرنا چاہیے۔ ……

یہی سب سے ضروری کام ہے۔ ……

اللّٰہ تعالیٰ ہمیں معاملات میں بہتر بنائے؛ تاکہ ہم انسانیت کے لئے بہتر ثابت ہو سکیں۔آٰمین 

ختم شد 


No comments:

Post a Comment

عید یومِ محاسبہ و معاہدہ

 ⬅️’’عید‘‘  یومِ محاسبہ و معاہدہ ➡️ عمومی طور پر دنیا میں مسلمانوں کے تین تہوار منائے جاتے ہیں، جو کہ خوشی، معاہدہ، محاسبہ، ایثار وغیرہ کا پ...