Wednesday, October 2, 2024

آپ ہی سر بلند رہیں گے اگر

سوشل میڈیا کے رواج پانے کے بعد کسی بھی موضوع پر بحث و مباحثہ کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ پہلے یہ سب نہیں ہوتا تھا۔ پہلے بھی ہوتا تھا۔ صرف آلات بدل رہے ہیں۔ افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ ہم آلات و ظرف پر فتویٰ لگا دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر برسوں چھاپہ خانہ کی مخالفت کی جاتی رہی۔ پھر تصنیف و تالیف کا سلسلہ چل پڑا، کتابوں کا چلن عام ہوا، مخالفت، الزام تراشی اور اعتراض اور جواب الجواب کا سلسلہ برسوں چلتا رہا۔ پھر کمپیوٹر کا زمانہ آیا ہے۔مہینوں کا کام ہفتوں میں اور ہفتوں کا کام دنوں میں ہونے لگا۔ اور اب تو گھنٹوں کا کام منٹوں میں ہونے لگا ہے۔ لیکن ہم کہاں ہیں؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ روزمرہ استعمال میں ہونے والی سواری کی مثال لیں۔ کیسی کیسی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ برسوں آپ صحرا کے خاک چھانتے رہے۔ پھر راستے بنائے، مختلف قسم کے پکے راستے بھی بنانے لگے۔ پیدل چلتے رہے۔ سواری کے لئے جانوروں کا استعمال کیا، پھر آپ نے مختلف قسم کے دھاتوں کی مدد سے سواریاں بنانی شروع کی۔ آج آپ کس طرح کی سواری استعمال کرتے ہیں، سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ہر دور میں تبدیلیاں آتی رہی ہیں اور آتی رہیں گی۔ ہمیں اُن تبدیلیوں کو سمجھنا پڑے گا، اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنا پڑے گا۔

اتنی ساری تمہید باندھنے کا میرا مطلب صرف یہ بتانا ہے کہ Negativityاور Positivity یعنی مثبت اور منفی ہر دور میں رہا ہے۔ دقتیں ہمارے ساتھ اس لئے آرہی ہیں کہ ہم نے اکثر مثبت کو چھوڑا یا دھیان نہیں دیا اور منفی میں اُلجھے رہے اور اب بھی اُلجھے ہوئے ہیں۔ یہاں ہم صرف یاد دہانی کرانا چاہتے ہیں کہ ہم اپنی زندگی اور آخرت دونوں جہاں کو بہتر کیسے بنا سکتے ہیں؟کسی بھی کام کے لئے ’’کب‘‘ ’’کیا‘‘ ’’کیوں‘‘ کا سوال ضرور آتا ہے۔ یاد کریں !پرائمر ی کی دوسری تیسری جماعت میں اس کی مشاقی کرا دی گئی ہے۔ کہانی کے خاتمہ پر سوال کے حصہ میں اکثر یہ سوال ضرور ہوتا تھا۔ ’’کس نے کہا؟‘‘ ’’کب کہا؟‘‘ ’’کیوں کہا؟‘‘

ان تین باتوں کو اگر ہم اچھی طرح سمجھ لیں اور عمل کریں تو ہماری دنیاوی زندگی اور اُخروی زندگی دونوں کامیاب ہو سکتی ہے۔ اب قرآن مجید کی اس بنیادی آیت کو غور سے پڑھیں اور جتنے بھی مفسرین نے اس کی تفسیر کی ہے، سمجھنے کی پوری کوشش کریں۔

إن الصلاة كانت على المؤمنين كتابا موقوتا

ایمان کے بعد دین کا پہلا رکن صلوٰۃ کے وقت کا تعین اس آیت میں کیا گیا ہے۔صلاۃ کو وقت کے ساتھ اور وقت کو صلاۃ کے ساتھ لازم ملزوم رکھا گیا ہے۔

وقت کی اہمیت کو بتانے اور سمجھانے کے لئے ہزاروں صفحات لکھے جا چکے ہیں۔سینکڑوں تقاریر اب آڈیو اور ویڈیو کی شکل میں دستیاب ہیں۔ اسے اچھی طرح سمجھیں۔ اور قرآن مجید کی روشنی میں عمل کریں۔ کبھی آپ پریشانی کا شکار نہیں ہوں گے۔ اب اس آیت پر غور کریں۔ 

إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا

اللّٰہ تعالیٰ نے ہمیں راستے بتا دیئے ہیں۔ اب اختیار ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم کیا کرتے ہیں؟ صحیح اور درست طریقے کو اپنا کر شکر گزار بندہ بنتے ہیں یا غلط طریقہ کو اپنا کر انکار کرنے والے۔

برسوں سے ہم دوسری قوموں کی بنائی اور ایجاد کی ہوئی چیزوں کو استعمال کرتے آرہے ہیں۔ ہماری لاعلمی کا عالم یہ ہے کہ ہمارے اسلاف نے کیا کیا ایجادات کئے، وہ بھی ہم نہیں جانتے۔ اس لئے اب ہم دوسروں کے دست نگر بن گئے ہیں۔ ذرا سی کسی نے ہماری حمیت کو جھنجھوڑا ، اور ہم نے بائیکاٹ کا حکم نامہ جاری کیا۔ ۔۔ بغیر سمجھے بغیر دلیل کے۔۔۔ اگر آپ سمجھ رہے ہوتے تو آپ خود اُن ضروری اشیاء کو تیار کر لیتے۔ لیکن ایسا نہیں کیا۔ خود تو تیار نہیں کیا، بلکہ اس کو سمجھنے میں برسوں لگایا۔ تشویش اور شک میں مبتلا رہے۔ منفی رویّہ رکھا۔ بائیکاٹ کا سلسلہ برسوں سے جاری رکھا۔ مثال کے طور پر پرنٹنگ پریس، ٹیلی ویژن، کمپیوٹر، انٹرنیٹ، موبائیل فون وغیرہ۔ یہ ترسیلی آلات ہیں۔ پرنٹنگ پریس کے ذریعہ صدیوں سے کتابیں چھاپی اور تقسیم کی جاتی رہی ہیں۔ کب آیا ۔۔۔۔۔؟ اور کتنی دیر لگائی ہم نے اسے سمجھنے اور استعمال کرنے میں ؟ غور کریں۔ ۔۔ ’’ٹیلی ویژن ‘‘ پر ہم نے خوب مضامین لکھے۔ برائیاں کنٹینٹ کی تھیں اور ہم برسوں ٹیلی ویژن کی برائی کرتے رہے اور اس کے مثبت پہلو کو بھی اپنانے میں برسوں لگا دیے۔ کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور موبائیل فون کے ساتھ بھی ہمارا رویّہ ایسا ہے۔ جب غیروں کی بنائی ہوئی چیزوں سے آپ کو تکلیف ہوتی ہے تو آپ اپنی ضرورت کا سامان خود کیوں نہیں بنا لیتے؟ ۔۔۔کیوں دوسروں کی بنائی ہوئی لاؤڈ اسپیکر کو استعمال کرتے ہیں؟ ۔۔۔لعن طعن کرنے کے لئے۔ ۔۔۔کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، انٹرنیٹ، اسمارٹ فون۔۔ ۔ ۔ اس کے مثبت اور منفی استعمال کو سمجھیں۔۔ ۔ مثبت استعمال آپ کی زندگی سنوار سکتی ہے، ۔۔۔۔ جبکہ اکثر منفی استعمال ہو رہا ہے۔۔۔۔ جس کے نتیجے بھی سامنے آرہے ہیں۔ جس کے لئے آپ فتاویٰ جاری کر دیتے ہیں۔ ۔۔۔اپنا طریقۂ استعمال نہیں بدلتے اور بائیکاٹ کا فتویٰ جاری کر دیتے ہیں۔ جاہل عوام اسے من و عن تسلیم کر لیتی ہے۔ ۔۔۔۔آپ کے غلط فیصلے اور رہنمائی کی وجہ سے قوم کئی برس پیچھے چلی جاتی ہے۔ اور روز بروز پیچھے ہوتی جارہی ہے۔۔۔۔ آخر۔۔۔ آج کیسے دھڑادھڑ یوٹیوبر بن رہے ہیں؟ ۔۔۔گوگل میٹ کے ذریعہ آن لائن کلاسز ہورہی ہیں۔ میٹنگیں ہو رہی ہیں۔ ۔۔۔ کیا یہ مثبت استعمال نہیں ہے؟ ۔۔۔ قوم کو مزید کتنا پیچھے کرنا چاہتے ہیں؟ بار بار یہ کہا جاتا رہا ہے کہ۔۔۔ ’’ہم تعلیم کے میدان میں پیچھے ہیں‘‘۔ ہم تعلیم کے میدان میں پیچھے نہیںہیں۔۔۔ ہم علم اور حکمت کے میدان میں پیچھے ہو رہے ہیں۔ ۔۔ہمارے مدارس اور دیگر تعلیمی اداروں میں تعلیم دی جارہی ہیں لیکن علم و حکمت نہیں۔ ۔۔۔ اللّٰہ تعالیٰ نے ہمیں قلم کے ذریعہ علم سکھایا۔۔۔۔ اور وہ سب کچھ سکھایا جس کا علم ہمیں نہیں تھا۔ ۔۔۔ وہ علم کہاں ہے؟ دکھائیے۔۔۔۔

جب ہم نے فیس بک پر سوال کیا کہ ’’وہ کون سی قوم ہے جو ایک خاص دن صاف ستھرا ہو کرصاف ستھرے کپڑے زیب تن کرکے، خوشبو سے آراستہ ہوکر عبادت گاہ جاتی ہے، لیکن چپل یا جوتے پرانے پہن کر جاتی ہے۔‘‘

جواب بھائی! کیوں اپنی کرکری کرنے پر تلے ہوئے ہو؟

جمعہ کی نماز کے لئے جیسے ہی تکبیر پڑھی جاتی ہے ۔ یا پڑھ دی جاتی ہے ۔ اکثر ایک جملہ سننے کو ملتا ہے ’’بچے پیچھے جائیں‘‘ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بھائی! ’’کتنے پیچھے جائیں۔‘‘۔ ۔ ۔ ۔ یہاں تک کہ وہ مسجد ہی نہیں جاتے۔ ۔۔۔ کتنا پیچھے کریں گے؟۔۔۔۔ بچوں کو۔۔۔۔ غور کرکے دیکھیں۔ ۔۔ اپنے علاقے کا مشاہدہ کریں۔۔۔ ایک چھوٹا سا کام جسے آپ آج تک Manage  نہیں کر پائے۔ اور نہ بچوں کو نماز میں مرتب کر پائے اور کہتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو زمین پر معلم بنا کر بھیجا ہے۔۔ ۔ حکومت کرنے اور سربلندی حاصل کرنے کے لئے بھیجا ہے۔

اب تک کی دی گئی مثالوں سے آپ کو لگتا ہے کہ اِس روئے زمین پر آپ نے سربلندی حاصل کر لیا ہے؟ ۔۔۔ یا کر لیں گے؟۔۔۔  اگر سربلندی حاصل کرلیا ہے تو بتائیں وہ کون سا ملک ہے جسے آپ اللّٰہ کے بنائے قانون کے مطابق چلارہے ہیں؟ ۔۔۔ اور آپ ضروریاتِ زندگی کی سبھی اشیاء تیار کرنے اور بہم پہنچانے میں خود کفیل بن چکے ہیں؟۔۔۔ اب نتیجہ والی آیت ملاحظہ فرمائیں۔

فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَهُ ، وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرّاً يَرَهُ‏

پس جس نے ذرہ برابر بھی نیکی کا عمل کیا ہوگا، وہ اسے دیکھے گا اور جس نے ذرہ برابر بھی برائی کا عمل کیا ہوگا، وہ بھی دیکھے گا

آخرت میں ہر عمل کا بدلہ ملے گا۔ جس کا ثبوت مذکورہ آیت ہے۔

جس طرح بیمار ہونے کی اصل وجہ بے ترتیب خوراک کھانا ہے۔ …اُسی طرح زندگی میں ناکام ہونے کی اصل وجہ بے ترتیب عمل ہے۔ …پہلے دوڑنا سیکھیں، پھر دوڑ لگائیں۔ ۔ ان شاء اللّٰہ کامیاب ہو جائیں گے۔

جو تقریب حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور صحابہ سے ثابت ہے اسے مضبوطی سے پکڑیں۔ جو تقریب حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور صحابہ سے ثابت نہیں ہے وہ ضرور کہیں باہر سے آئی ہے۔ لہٰذا اسے اپنانا حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنے کے ضمن میں آئے گا۔

آپ غور کریں، نظر دوڑائیں نکاح جیسی سنت جس کو کئی مقام پر اللّٰہ کے رسول نے آدھا ایمان کہا ہے، سب سے پہلے اِسی سنت کی مخالفت ہو رہی ہے … فضول خرچی اور بے ترتیبی کی ایسی مثال شاید تاریخِ اسلام کے کسی دور میں نہیں ملتی … آخر کب ہم فضول خرچی سے بچیں گے۔؟ نوے فیصد سے زاید علماء کرام فضولیات کو فروغ دینے میں لگے ہوئے ہیں … پھر ہمارا معاشرہ کیسا ہوگا؟ جو موجودہ ہے؟  یا  اس سے بہتر ہو گا؟ … نہیں۔ …قطعی نہیں۔  …اس کی سزا بھی اِسی قوم کو بھگتنی پڑے گی۔ اور بھگت رہی ہے۔

بھائیو! سنت کو اپناؤ۔ 

سرمایہ کا درست استعمال کرو۔ 

جلدی کامیاب ہو جاؤگے۔ 

ایک مثال برہان پور مہاراشٹر کی عامر خان کے ٹی وی پروگرام ’’ستیہ میو جیتے‘‘ کے ذریعہ سامنے آیاہے۔ 

اس طرح کی مثال ہر علاقے میں اپنانا ضروری ہے۔ 

آپ دیکھ رہے ہیں کہ ایک قوم اپنا ہدف حاصل کرنے میں بہت حد تک کامیاب ہو رہی ہے۔ اور آپ جن چیزوں پر ناز کر تے آرہے ہیں، اسے غلامی کی نشانی قرار دے کر نیست و نابود کرنے کی مہم جاری رکھے ہوئے ہے۔  

آخر کب تک اپنے باپ داداؤں کی بنائی چیزوں پر ناز کریں گے۔ 

آپ کیا بنا کر چھوڑے جا رہے ہیں جس پر آپ کے پوتے ناز کریں گے۔؟؟؟

۱۱نومبر۲۰۲۰ء


Friday, September 20, 2024

سوچئے! یہ کیا ماجرا ہے؟

 سوچئے! یہ کیا ماجرا ہے؟


’’قرآن دنیا کی آسان کتاب

جتنے بھی غیر مسلم دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں وہ قرآن پڑھ اور سمجھ کر داخل ہو رہے ہیں۔

انہوں نے ہمارے کسی مولوی صاحب کے پاس جا کر قرآن نہیں سمجھا بلکہ خود ہی سمجھاہے۔

غیر مسلموں کے سمجھنے کے لئے  قرآن آسان اور مسلم کے سمجھنے کے لئے قرآن مشکل۔

سوچئے! یہ کیا ماجرا ہے؟‘‘


واوین یا انورٹیڈ قوماز کے اندر لکھا یہ پیغام واٹس ایپ پر تیر رہا ہے، گھوم رہا ہے۔ عام فہم زبان میں یہ بات سبھی کو سمجھ میں آ رہی ہے۔ ’’لیکن نہیں سمجھ آیا تو ابھی تک قرآن کا پیغام!‘‘


جس نے بھی یہ پیغام دیا ہے وہ یہ بتانا چاہتا ہے مسلم قوم قرآن کے پیغام کو نہیں سمجھتے۔ یا اُن کے لئے سمجھنا مشکل ہے۔

پہلی سطر’’قرآن دنیا کی آسان کتاب‘‘ اس میں شاید ہی کسی کو شک ہو۔

دوسری سطر ’’جتنے بھی غیر مسلم دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں وہ قرآن پڑھ اور سمجھ کر داخل ہو رہے ہیں‘‘

ظاہر ہے کہ اِس بات کا انہوں نے اقرار کیا ہے کہ دوسرے لوگ یا غیر مسلم قرآن پڑھ اور سمجھ کر داخل ہو رہے ہیں۔

ہمارے لوگوں کی سمجھ کہاں کھپ گئی؟؟؟

کیا ہم قرآن کے پیغام کو سمجھنے کے قابل نہیں ہو سکے یا نہیں ہیں؟

ہمارے لوگ کسی مولوی صاحب کے پاس جاکر قرآن سمجھنے کی کوشش کیوں کرتے ہیں؟

کیا ہمارے کسی مولوی صاحب نے اب تک قرآن سمجھایا ہے؟

کیا ہمارے مولوی صاحب اور جنہوں نے قرآن سمجھا ➖ یا ➖  سمجھایا ہے، وہ قرآن کے احکام پر پابند ہیں؟ 

اگر ہیں تو کس حد تک ؟

آج ہمارے پاس یہ فہرست تو موجود ہے کہ کس عالم یا دانشور نے کتنی کتابیں، تفسیریں، وغیرہ لکھی ہیں؟

کتنے مدرسے یا کتب خانے قائم کئے؟

سماج کا کون سا ایسا باب یا پہلو ہے جس پر ہمارے علماء کرام نے کتابیں نہیں لکھیں یا تقریریں نہیں کیں؟

ایک ہی موضوع پر درجنوں عالموں کی درجنوں کتابیں موجود ہیں۔ 

نماز کی کتاب کی مثال لے لیجیے۔ کسی بھی شہر کے کتب خانہ بازار میں جائیے، دسیوں کتابیں مل جائیں گی۔ بلکہ دہلی، ممبئی، حیدرآباد، لکھنؤ جیسے شہروں میں سو کے قریب مختلف نسخے نماز کے موضوع پر مل جائیں گے۔

یہاں تک کہ اب ’’انجمن حمایت اسلام لاہور‘‘ کے ذریعہ تیار کردہ ’’اردو کا قاعدہ‘‘ پر سیندھ مارنے کی کوشش کی گئی ہیں۔ کلکتہ اور بہارشریف کے دو کتب خانوں کو میں رابطہ کیا تو اُن کے پاس جواب ٹالنے والا تھا، ’’ابو نے کرایا ہے، علماء کرام ہی بتا سکتے ہیں‘‘ وغیرہ۔ آخر یہ لوگ قوم کو دینا کیا چاہتے ہیں؟

یہ ایسا دعویٰ بھی نہیں ہے کہ جس کی دلیل آپ مجھ طلب کریں۔ آپ کی آنکھوں کے سامنے دلائل کی بھرمار ہیں۔ 

علماء کرام بنٹے ہوئے ہیں۔ کتب خانے بنٹے ہوئے ہیں۔ مدرسے بنٹے ہوئے ہیں۔ مسجدیں بنٹی ہوئی ہیں۔ 

ہر مسلک و مشرب کی جانب سے درجنوں علماء کرام کتابوں اور تقریروں کی بھرمار کئے ہوئے ہیں۔ 

پھر بھی ہمارے لوگ قرآن کو سمجھ نہیں پاتے ہیں۔ کیوں؟  اصل  پہلو پر بھی آپ غور کریں۔

اصل بات یہ ہے کہ ’’کیوں‘‘ کے پہلو پر ہمیں غور کرنے کی صلاحیت مفقود ہو چکی ہے۔

آپ اگر دیکھنا چاہتے ہیں تو دیکھیے گا کہ اکثر وہ لوگ جنہوں نے دینِ اسلام قبول کیا ہے، وہ کسی مولوی کی رہنمائی میں تو برائے نام ہیں۔ لیکن کسی غیر مولوی اسکالرز کے ذریعہ عام طور پر بھری مجلس میں اسلام قبول کر رہے ہیں۔ کیوں کہ اُن کے ذریعہ کئے گئے سوالات کے جوابات دیے گئے اور دیے جا رہے ہیں۔ اُن کا اطمینانِ قلب ہی، انہیں اسلام کی سچائی کو قبول کرنے پر مائل کر رہا ہے۔ نہ کہ مجبور کر رہا ہے۔ 

لیکن یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کہ جہاں بھی مجبور کرنے کی صورت پیدا ہوئی ہے، وہ لوگ بظاہر اسلام قبول کر چکے ہیں لیکن عملی طورپر اسلام کے اصولوں پر کاربند نہیں ہیں۔ نہ ہی وہ اصول کو سمجھ پائے اور نہ ہی انہوں نے سمجھنے کی کوشش کی۔

آپ خود دیکھ رہے ہوں گے کہ ہمارا سماجی طور طریقہ کس حد تک غیروں کے مماثل ہیں۔ ہم لوگ اصول کو اپنی خواہش کے مطابق عمل میں لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب کہ حدیث کے مطابق اسلام کا اصول ہے کہ 

لا يُؤمنُ أحدُكُم حتى يكونَ هَوَاهُ تبعًا لما جِئتُ بِهِ

کوئی شخص اُس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اُس کی طبیعت میرے ذریعہ لائے ہوئے پیغام کے تابع نہ ہو جائے۔

لا يُؤْمِنُ أحدُكم حتى أَكُونَ أَحَبَّ إليه مِن وَلَدِه، ووالِدِه، والناس أجمعين

کوئی شخص اُس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں (محمد ﷺ) اُن کی اولاد، اُن کے والدین اور دیگر تمام لوگوں کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔

محبت، حبیب، اور محبوب کی تفصیل جاننے کے لئے اس آیت کے مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔

قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ

(سورہ آلِ عمران آیت ۳۱)

اے نبی (محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم) کہہ دیجیے کہ اگر تم اللّٰہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللّٰہ تعالیٰ تمہیں محبوب رکھے گا، اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا۔ بے شک اللّٰہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

محبت کے اِس جامع حکم اور اصول کو ہم نے یا تو سمجھا نہیں، یا پھر عمل میں نہیں لایا، یا پھر ہم اپنی طبیعت کے مطابق زندگی جینا چاہتے ہیں، جیسا کہ عمومی طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

کوئی تو وجہ ہے کہ غیروں کے سامنے ہماری عزت نیلام ہو رہی ہے۔ ہمیں ذلیل و رسوا کیا جا رہا ہے۔ ہماری عبادت گاہیں مسمار کی جا رہی ہیں۔ ہمارےتعلیمی ادارے برباد کیے جا رہے ہیں۔ یہاں تک اب ہمارے گھر بھی ہمارے سامنے بلڈوز کئے جا رہے ہیں۔ کیوں؟؟؟

ہم نے بھی دیکھا اور عمومی طور دیکھا اور سنا جا رہا ہے کہ ہمارے لوگ اب اپنی عبادت، ریاضت، معاملات، اور سماجی پہلو کو احکامِ الٰہی اور طریقۂ نبی کو چھوڑ کر اُن سے موازنہ کرکے عمل میں لاتے ہیں۔


’’وہ پندرہ دنوں سے کانوڑ لے کر چلتے ہیں تو راستہ جام نہیں ہوتا؟‘‘

یا اِسی طرح کے دیگر اسباب بیان کرتے ہیں۔

اُن کے اصول وہ جانیں، بلکہ وہی زیادہ جانتے ہیں۔ ہم انہیں اصول سکھانے والے کون ہوتے ہیں؟


بہت کم ایسے لوگ ہوں گے جو اس طرح سے سڑک جام کرنے کو صحیح تسلیم کرتے ہیں۔ جب کہ اکثریتی طبقہ بھی ایسی حرکتوں کو ناپسند اور خلاف اصول سمجھتے ہیں، اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس طرح سڑک جام کرنا یا ایک طرفہ سڑک جام کرنا اور وہ بھی کئی کئی ہفتوں تک۔ غیر مناسب ہے۔ 

ٹریفک جام ہونے کی وجہ سے کروڑوں لوگوں کو تین گنا کرایہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ 

ٹرانسپورٹیشن میں دقتوں کا سامناکرنا پڑتا ہے۔ 

بہت سارے ضروری کام ٹالنے پڑتے ہیں۔ 

لیکن مریض کا علاج کرانا تو ضروری ہوتا ہے۔ 

انہیں اور بھی زیادہ دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 

ٹریفک کی دقتوں کی وجہ سے ضروریاتِ زندگی کی پہنچ میں دشواری ہوتی ہے۔ 

مریض جان گنواتے ہیں یا اپاہج ہو جاتے ہیں۔


وہ راستہ جس پر لوگ چلتے ہیں اور اسے اپنے پاؤں سے پامال کرتے ہیں وہ بھی ان سات مقامات میں داخل ہے جن میں نماز پڑھنے سے نبی کریم ﷺ نے منع فرمایا ہے، چنانچہ ابن ماجہ نے ’’سنن‘‘ میں حضرت ابن عمرؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا

سَبْعُ مَوَاطِنَ لَا تَجُوزُ فِيهَا الصَّلَاةُ ظَاهِرُ بَيْتِ اللَّهِ وَالْمَقْبَرَةُ وَالْمَزْبَلَةُ وَالْمَجْزَرَةُ وَالْحَمَّامُ وَعَطَنُ الْإِبِلِ وَمَحَجَّةُ الطَّرِيقِ

(سنن ابن ماجہ۷۴۷)

’’سات مقامات ایسے ہیں جن میں نماز جائز نہیں ۔

(۱) بیت اللہ شریف کی چھت (۲)قبرستان (۳)کوڑے کرکٹ کا ڈھیر (۴)ذبح خانہ (۵)حمام (۶) اونٹوں کا باڑہ (۷) راستہ۔‘‘

مذکورہ حدیث کس زمانے میں قابلِ عمل ہوگی؟

کیا اِس میں راستہ پر نماز پڑھنے سے منع نہیں کیا گیا؟

کئی مقامات پر ٹریفک میں دشواری ہوتی ہے لیکن مسجد کمیٹیوں نے انتظامیہ سے متعینہ وقت کے لئے درخواست دی ہوئی ہے۔ مسجد کے امام و مقتدی وقت کا پورا پورا خیال رکھتے ہیں۔ کوئی دشواری پیش نہیں آتی۔

لیکن چند دو ٹکے کے امام جو اپنے بیانات کو طول دیتے ہیں اور جواز افادیت کا فراہم کرتے ہیں، سب سے بڑے فتنہ کے جنم دینے والے ایسے ہی امام اور کمیٹی والے ہیں۔ جس مسجد میں جمعہ کی نماز یا دیگر نماز کا وقت متعین ہوں اور اسے نئی افادیت یا کوئی اور بہانا بنا کر نیا فتنہ پیدا کرنا کسی بھی طرح سے مناسب نہیں کہا جا سکتا۔

دو ٹکے کے امام اور کمیٹی والوں نے گاؤں تک میں فتنہ پیدا کر رکھا ہے۔ خاص طور سے ان علاقوں میں جہاں فیکٹری اور دفاتر ہیں۔ کیوں ایک ہی وقت میں جمعہ پڑھی جاتی ہے۔؟ جب کہ ہمارے پاس کئی جماعتیں کرنے کی گنجائش ہیں۔ اسی لئے تو کہ کسی کا جمعہ بھی نہ چھوٹے اور انسانیت کو تکلیف بھی نہ ہو۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ آج جمعہ کا دن اور وقت ہے، خود احتیاط کرتے ہیں۔ لوگ احتیاط کرتے ہیں۔ دوسرے لوگوں کو بھی ہماری ضرورتوں کا خیال رہتا ہے۔ لیکن ہم کس بنیاد پر خطبہ کو طول دے کر نماز کو پانچ سے دس منٹ تک مؤخر کرتے ہیں؟ اور کیوں؟ لاکھوں کی تعداد میں علماء مولوی اور مولوی نما لوگ مدارس اور مساجد کے وقت اور طور طریقے کو کیوں نہیں سنبھال پاتے ہیں؟ مسجدکی صفائی ستھرائی اور امام کی غیرحاضری پر سب سے سب جج یا متولی بن جاتے ہیں۔ لیکن ذمہ داری نبھانے کے نام پر ؟؟ ’’یہ تو فلاں کا کام ہے‘‘

جن قوموں نے وقت کا خیال نہیں رکھا، وہ قومیں تباہ ہوئی ہیں۔ دنیا کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے۔

آج بھی وہیں قومیں کامیاب و کامران ہیں، جن کا وقت، مال اور صحت کا تنظیمی ڈھانچہ اصول کے مطابق ہے۔

کیا مسلم قوم نے زکوٰۃ جیسے اہم رکن کو مالیاتی تنظیم کا ذریعہ بنایا؟

کیا مسلم قوم نے صوم جیسے اہم رکن کو جسمانی تنظیم کا ذریعہ بنایا؟

کیا مسلم قوم نے وقت جیسے اہم معاشرتی حکم کو منظم کیا؟

اگر نہیں تو نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ 

کتنے فیصد ڈاکٹرس، انجینئرز، وکلاء، صنعت کار آپ نے پیدا کئے؟

شاید یہ اللّٰہ کی جانب سے قلعی کا دور چل رہا ہے۔ یعنی ریفرش منٹ کا زمانہ۔ اس دور میں وہی عزت سے رہیں گے، جنہوں نے احکامِ خداوندی اور طریقہ رسول کی پاسداری کی اور جنہوں نے اپنی مرضی سے جینے کا طے کیا ہوا ہے۔ وہ خس و خاشاک کی طرح دنیا سے ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔

اللّٰہ ہم سب کی حفاظت فرماے۔ صحیح سوچ اور غور فکر کی صلاحیت عطا فرماے۔ آمین

فیروزہاشمی

24th March 2024


Wednesday, July 31, 2024

کتابت کی حمایت

انجمن خطاطانِ ہند، نئی دہلی؛ واٹس ایپ گروپ میں ایک صاحب نے رضا لائبریری رامپور کے تختۂ نشان کے ساتھ فوٹو کھنچوا کر پوسٹ کر دیا۔ جس سے کئی ساتھیوں کو ان کی حماقت محسوس ہوئی۔ گروپ میں دستی کتابت اور خوشنویسی کی تخلیق ہی پیش کیے جانے کی اجازت ہے نہ کہ بذریعہ کمپیوٹر بنے ہوئے نشانات و پوسٹر وغیرہ کی۔ اس تعلق سے یہ مضمون وجود میں آیا۔

کتابت کی حماقت، کتابت میں حماقت، کتابت اور حماقت۔ یا کتابت کی حمایت۔ یہ سلسلہ اُس وقت سے جاری ہے جب سے کتابت کو بطورِ پیشہ اپنایا۔ حالاں کہ سیکھنے کے لیے ہم نے تین اساتذہ کرام سے اصلاح لی۔ اور غائبانہ طور پر دسیوں آرٹسٹ اور خطاطوں سے استفادہ کیا اور آج بھی کر رہے ہیں۔الحمدللہ ابھی تینوں اساتذہ حیات ہیں۔ کچھ ایسی ہی حالت صحافت کی بھی ہے۔ صحافت کی حماقت، صحافت میں حماقت، صحافت اور حماقت۔ کتابت کی حماقت کے بجائے آپ اسے خوش فہمی پڑھیں تو پڑھنے میں ذہنی کوفت نہیں ہوگی۔ 

ہر فن کو سیکھنے اور سکھانے کے کچھ نہ کچھ طریقے اور اصول رائج ہیں۔ یہ اصول اور طریقے سب آسمان سے نازل نہیں ہوئے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کی طرف مائل کیا، تاکہ وہ اپنے عقل و شعور کے ذریعہ دنیا کی ضرورتوں کو پوری کر سکے۔ اسی میں سے ایک فن خوش نویسی بھی ہے۔ جسے کتابت بھی کہہ سکتے ہیں۔ یا کہا جاتا ہے۔ بعد کے اساتذہ نے تھوڑا فرق کیا۔ وہ یہ کہ کتابت عام لکھائی اور کاتب عام لکھنے والے کو کہا جانے لگا۔ اور خوش نویس یا خطاط عمدہ اور مختلف خطوط کے ماہرین کو کہا اور سمجھا جانے لگا۔ چالیس برس پہلے تک زمین جائداد کے رجسٹریشن کے دستاویزات لکھنے والے کو بھی کاتب کہا جاتا تھا۔ اب یہ سارا کام آن لائن اور بذریعہ کمپیوٹر ہونے لگا۔

پرائمری کی دوسری جماعت میں جب سلیٹ پر لکھا کرتا تھا تو تحریر کی سطر آخر کی طرف نیچے ہوجاتی تھی، جو کہ عموماً نئے لکھنا سیکھنے والے کے ساتھ ہوتا ہے۔ آج بھی اگر کسی کو بغیر لائن والے کاغذ پر درخواست لکھنے کو کہاجائے تو عموماً ایسا ہوتا ہے۔ بہت کم لوگ سیدھی سطر لکھ پاتے ہیں۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا، استاذ جو کہ خود میرےوالد محترم تھے، بار بار کہتے کہ سیدھا لکھو۔ 

کیسے لکھیں؟ 

سطر ٹیڑھی کیوں ہو جاتی ہے؟

دیکھو کتاب میں جیسے لکھا ہے ویسے ہی لکھو۔

کتاب میں نشان نہیں ہے پھر سیدھی سطر۔ میں لکھتا ہوں تو ٹیڑھی کیوں ہو جاتی ہے؟

اس کا جواب نہیں تھا، ان کے پاس۔

جب پرائمری پاس کرکے مدرسہ میں عربی اوّل میں پہنچا تو وہاں دیکھا کہ عربی سوم سے کتابت سکھائی جاتی ہے۔ مجھے سیکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ حالاں کہ مجھے سیدھی سطر لکھنے کا جنون سوار تھا۔ لکیر والی کاپی پر تو لکھنا آ گیا لیکن بغیر لکیر والی کاپی پر سیدھا لکھنا اس وقت بھی مشکل تھا۔ جب میں نے دیکھا کہ کتاب سیکھنے والے پنسل سے ہلکی سی لکیر کھینچتے ہیں تب سیدھا لکھتے ہیں۔ اس وقت سمجھ میں آیا کہ سیدھا لکھنے کا طریقہ اور راز کیا ہے۔ اُس دوران اضافی مطالعہ کرتے ہوئے ہمارے سامنے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی بات سامنے آئی جو کچھ اِس طرح تھی۔

قال الإمام علي بن أبي طالب كرم الله وجه

امام علی ابن ابی طالب کرمہ اللہ وجہ نے کہا

((عليـــكم بحسن الخط فإنه من مفاتيح الرزق))

آپ کو اچھی لکھاوٹ کی مشق کرنی چاہیے کیوں کہ یہ معاش کی کنجیوں میں سے ایک ہے

و قال أيضاً

اور یہ بھی کہا

((أكــرموا أولادكم بالكتابة فإن الكتابة من أهم الأمور وأعظم السرور)) 

اپنے بچوں کو لکھ کر عزت دیں کیوں کہ لکھنا سب سے اہم چیز اور سب سے بڑی خوشی ہے۔

وأيضاً ((الخــط الحسـن يزيد الحق وضوحاً)).

اور یہ بھی کہا ’’عمدہ لکھاوٹ حقیقت کو واضح کرتا ہے‘‘

اِس روئے زمین پر دین اسلام کو تسلیم کرلینے کے بعد جو سب سے اہم ذمہ داری بنتی ہے وہ انسانیت کی درست تربیت ہے۔ خود ہمارے پیغمبر محمد ﷺ نے اپنی ذمہ داری  بتاتے ہوئے فرمایا

إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَكَارِمَ اَلْأَخْلاَقِ.

مجھے اچھے اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا تھا۔

اخلاقیات میں وہ ساری باتیں اور امور شامل ہو جاتی ہیں، جو انسانیت کی فلاح و کامرانی کے لیے کیا جائے۔ 

اب بات کر لیتے ہیں دورِ موجودہ میں خوشنویسی اور کمپیوٹر کے تعلق سے۔

تقریباً پچیس برس پہلے جب قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ڈائرکٹر محترم حمیداللہ بھٹ نے کونسل کے ذریعہ اردو اور خوشنویسی کو کمپیوٹر تکنیک سے جوڑنے کا پلان بنایا تو پچیس سے زائد خطاطوں کی ایک میٹنگ بلائی گئی تھی۔ جس میں بدلتے حالات کے پیشِ نظر کمپیوٹر تکنیک کو سکھانے، اپنانے اور فروغ دینے کے لیے درخواست کی۔ ملک کے کئی گوشے سے شریک ہوئے خطاطوں نے خوش نویسی کے تعلق سے کئی اعتراضات کیے۔ جس میں یہ بھی کہا گیا کہ خوش نویسی جیسی خوبصورتی کمپیوٹر سے نہیں آ سکتی۔۔

 اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ’’خوش نویسی جیسی خوبصورتی کمپیوٹر سے نہیں آ سکتی‘‘ لیکن بہت حد تک خوبصورتی اور بہتری کے قریب آ سکتی ہے۔ اگر آپ کرنا چاہیں تو اور سیکھنا چاہیں تو 

ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ کتابت اور خوش نویسی کے تعلق سے جو بھی سوالات ہیں؛ آپ ایک ایک کر کے رکھیں آپ کو نہ صرف تسلی بخش جواب دیا جائے گا بلکہ کر کے دکھایا جائے گا۔  یہ ’’فیروزہاشمی‘‘ جو کہ خطاط بھی ہیں وہی آپ کو اِن پیج اردو کے ذریعہ خطاطی سکھائیں گے۔ اُس وقت جو بھی اشکالات تھے، اُن کے تسلی بخش جواب دیے گئے۔ کرکے دکھایا گیا۔ جن لوگوں نے سیکھا وہ آج کوئی تربیتی ادارہ چلا رہے ہیں، ماہر خطاط ہیں، پبلشنگ ادارہ چلا رہے ہیں، کئی تو لیڈر بھی بن گئے۔ یہ سب ممکن ہوا توجہ دینے سے۔ نہ کہ بلاوجہ کے اعتراضات اور قیل قال کرنے سے۔

کونسل کے ذریعہ قائم کمپیوٹر تربیتی اداروں میں ’’اِن پیج اُردو‘‘  سکھانے کے لیے مختلف اداروں اور شہروں کا دورہ کیا۔تین سے زائد بار دہلی میں مراکز کے فیکلٹی ممبران کو اجتماعی طور پر ورک شاپ کے ذریعہ تربیت دیا۔ جو کہ اب میری طرح پچاس برس سے زائدہ عمر کے ہو چکے۔ کئی تو پہلے ہی سے بہت عمر کے تھے جو یا تو ریٹائر ہو چکے یا ناپید ہو چکے۔ اب کمپیوٹر سیکھنے سکھانے کے معاملے میں دوسری اور تیسری نسل آ چکی ہے۔ وہ ’’فیروزہاشمی‘‘ کو قطعی نہیں جانتی۔ جاننے کی ضرورت بھی کیا ہے۔

بعض ماہرین اور اہلِ ہنر کی عادت رہی ہے کہ وہ اپنے آگے کسی کے فن کو اہمیت نہیں دیتے۔ اُن کے کام کو ردّی سمجھتے ہیں۔ جب کہ اصلی استاذ وہ ہوتا ہے جو فن کی باریکی کو سمجھائے، جہاں غلطی ہو اُس کی نشاندہی کرے۔ پورے کے پورے کو ردّ نہ کرے۔ اس طرح سیکھنے والے جلدی سیکھتے ہیں اور استاذ کا احترام بھی کرتے ہیں۔ پورے کا پورا ردّ کرنے کا مطلب ہے کہ کرنے والا بالکل کورا یا نابلد ہے، یا پھر اُس کا کام اتنا بہتر ہے کہ آپ کو کمتری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ لہٰذا تنقیص کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

ہر ایک کے کام کو تنقیص کا نشانہ بنانا اچھا عمل نہیں کہا جا سکتا اور نہ ہی کسی کے کام کو کسی کے دوسرے کام سے موازنہ کیا جا سکتا۔ طالب علمی کے زمانے سے دیکھ رہا ہوں کہ اگر کسی فن میں ماہر استاذ کو کوئی کتاب پڑھانے کو دی گئی تو دوسرے استاذ تنقیص کا نشانہ بناتے ہیں۔ تعلیم اور ذریعہ تعلیم اکثر ایک سی ہی ہوتی ہیں، لیکن مہارت اکثر افراد کو اپنے دلچسپی کے میدان میں ہی ہوتی ہے۔ یہ کہنا کہ ’’وہ کیا پڑھائیں گے!! یہ پڑھا کے دکھائیں تو جانیں‘‘ 

یہ کون سا موازنہ یا مقابلہ ہے؟   

حدیث میں دلچسپی اور ماہر کو فقہ کی کتابیں دی جائیں۔ فقہ میں ماہر اساتذہ کو منطق دے جائے، و علی القیاس۔ اس قسم کے تبادلہ اور موازنہ و مقابلہ سے نہ فن ترقی کرتی ہے اور نہ ہی علم اور طالب علم ترقی کے منازل طے کر سکتا ہے۔ ایسا ہی کچھ خوشنویسی کے میدان میں بھی میں نے دیکھا۔ مثلاً ’’فارسی نستعلیق اور دہلوی نستعلیق کا موازنہ اس طرح کرنا کہ اِس میں کون بہتر ہے؟‘‘ نہایت ہی احمقانہ سوال اور غلط موازنہ ہے۔ کوئی یہ بھی سوال لے کر آئے گا کہ آپ نے تین اساتذہ سے سیکھا، اُن میں سے کس کو بہتر پایا؟ …نہایت بے وقوفی والا سوال ہے۔ اِس طرح کے سوالات اُن لوگوں کے ذہن میں زیادہ آتا ہے جو صرف اپنے لیے جینا چاہتے ہیں، ایسے لوگوں کے لیے ہم یہاں مولانا وحیدالدین خانؒ کا یہ قول نقل کر رہے ہیں۔

’’ذاتی مفاد کے لیے ہر انسان عقل مند ہوتا ہے۔ وسیع تر انسانی مفاد کے لیے عقل مند بننا صرف اُس شخص کے حصے میں آتا ہے جو ذاتی مفاد سے اوپر اُٹھ جائے۔‘‘

اس کو غور سے پڑھیں اور سمجھیں پھر فیصلہ کریں کہ ہم کون سے عقل مند ہیں؟

تحریر اور طرزِ تحریر دونوں کو سیکھنا اور فروغ دینا ضروری ہے، دوسری زبانوں میں کیلی گرافی سیکھنے کا عمل بہت تیزی سے رائج ہو رہا ہے۔ جب کہ ہمارے یہاں کسی چیز کو کمتر یا بے کار ثابت کرنے کے لیے بہت ہی مختصر سا جملہ رائج ہے۔

’’یہ سیکھ کر کیا کریں گے؟‘‘

جب میں اُن سے پوچھتا ہوں کہ

’’ اب تک جو سیکھا اُس سے کیا کیا؟ (کیا فائدہ اٹھایا؟ اور کتنا کمایا؟‘‘)

تو ایک محاوہ رائج ہے۔ ’’بغلیں جھانکنا‘‘ اصلی نمونہ دیکھنے کو مل جاتا ہے۔

سیکھ کر کیا کریں گے؟ ہمیں نوکری تو ملتی نہیں۔

اس سوچ نے بھی ہماری قوم کو علمی اور عملی میدان میں بہت پیچھے کر دیا ہے۔

جس طرح انسان لباس سے اپنی شخصیت کو پروقار بنانا چاہتاہے۔ اور ہر کوئی بناتا ہے، لیکن اگر اسے گفتگو کا سلیقہ معلوم نہ ہو، لکھنے کا سلیقہ معلوم نہ ہو تو وہ کیسا انسان شمار کیا جائے گا، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔

لہٰذا اِس تحریر کے ذریعہ اپنے سبھی دوستوں ساتھیوں اور عمومی افراد سے درخواست ہے کہ لکھنا سیکھیں اور سکھائیں، مشاقی کا عمل جاری رکھیں، خالی بیٹھیں تو کچھ نہ کچھ لکھیں، جس طرح کتابیں پڑھتے ہیں، قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں، دیگر فنون کے لیے وقت دیتے ہیں، ویسے ایک گھنٹہ تحریر کے لیے بھی دیجیے۔ تاکہ تحریر اور شخصیت میں نکھار پیدا ہوا۔ اور ہماری پہچان ایک باسلیقہ قوم میں ہو۔

محاورہ رائج ہے کہ ’’عقل بادام کھانے سے نہیں، دھوکے کھانے سے آتی ہے‘‘  بلکہ عمل کو سیکھنے کے لیے منفی اثرات کا ہونا ضروری ہے۔

مجھے خوش نویسی کے میدان میں تنقیص کا نشانہ بنایا گیا، وہ میرے لیے ترقی کا زینہ ثابت ہوا۔  (ورک شاپ کے لیے تیار ہوں) مجھے صحافت کے میدان میں تنقیص کا نشانہ بنایا گیا، وہ میرے لیے ترقی کا زینہ ثابت ہوا۔ (نئی شناخت کا شمارہ اور اردو ڈی ٹی پی دیکھیں) مجھے طب کے میدان میں تنقیص کا نشانہ بنایا گیا، وہ بھی میرے لیے ترقی کا زینہ ثابت ہوا۔  (علاج کرا کے آزمائیں)

سماج میں دیکھا یہ گیا ہے کہ ہر وہ شخص کامیاب ہوا جس کو وسیلہ کی کمی رہی، لہٰذا وہ خوب محنت کرتا رہا۔ کامیاب تاجر بنا۔ کامیاب اتنا ہوا کے اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے فائدہ کا سبب بنا۔ اور جن کو سہولتیں ملیں وہ نوکری کر رہے ہیں۔ کیوں کہ انہوں نے سیکھنے کے بعد صرف اپنے لیے سوچا۔

اپنے لیے جیے تو کیاجیے ➖اپنے لیے جیے تو کیاجیے

تو جی اے دل زمانے کے لیے

آپ چاہیں تو یہ پورا نغمہ یو ٹیوب پر سنیں۔ 

اس کے بعد تجزیہ کریں۔ اپنا یا دوسرے کا

 ☆ ☆ ☆

فیروزہاشمی

9811742537


Saturday, July 13, 2024

مظلوم، مقبول، مطلوب، مولوی

 مظلوم، مقبول، مطلوب، مولوی 


تو مجھ پر مہربانی کردیں۔ مجھے گائیڈ کردیں۔ کیسے کنٹرول کروں ڈائبٹیز کو۔ 

اپنا تھواڑا بیک گراؤنڈ بتا دوں۔ 

میرا نام حافظ محمد  … … … ہے۔ ابتدائی تعلیم سے لے کر عالمیت تک مدرسہ میں رہا۔ مدرسہ کی روکھی سوکھی خوراک لےتا رہا۔ ابھی کسی طرح کی کوئی عادت نہیں ہے نہ چائے،پان،بیڑی،سیگریٹ اور نا ہی کسی طرح کا باہری کھانا کھانے کی عادت رہی ہے۔ امامت بھی کیا تو بہت کم پیسے میں ۳۰۰۰  میں لیکن ابھی امامت چھوڑ دیا ہے گھر نہیں چلا پا رہا تھا۔ ابھی بچوں کو پڑھا رہا ہوں ٹیوشن وغیرہ قرآن دینیات اسلامیات اردو وغیرہ۔ 

مجھے اس وقت شوگر ہوا ہے جس وقت تین سے چار کیلومیٹر پیدل چل کر گھر گھر جاکر ٹیوشن پڑھاتا تھا۔ شوگر ہوئے ۵ سے چھ سال ہوچکا ہے۔ انگریزی دوا شروع سے نہیں کھایا ہے۔ لیکن۲۰۲۳ میں کچھ ماہ کھایا ہے اور ابھی ایک ماہ سے لے رہا ہوں انگریزی دوا۔ آیوروید پوڈر سے ہی کنٹرول کرتا تھا۔ 

آپ سے مؤدبانہ التماس ہے کہ ڈائٹ پلان کچھ بتا دیں۔ بتانے کے عوض میں دو چار سو روپئے آپ کو فیس دے سکتا ہوں۔ آپ پہلے مسلمان ڈابٹیز ایجوکیٹر ملے ہیں۔

اس وقت عمر ۳۹ برس اور وزن ۸۰ کلو گرام ہے۔

اس وقت آم کا موسم ہے۔ ملک کے بیشتر حصے میں بارش ہو چکی ہے۔ میں نے آم کی افادیت کے تعلق سے ایک مختصر تجربہ واٹس ایپ پر مختلف گروپ میں پیش کیا تھا۔ دس سے زائد مشکوک سوالات آئے۔ کئی لوگ اچنبھے میں رہے۔ کچھ لوگوں نے کھانے میں دلچسپی دکھائی اور خوش ہوئے کہ کئی برس کے بعد انہوں نے آم کھایا ہے۔ بڑا لطف آیا۔ لیکن بیشتر لوگ ابھی بھی شک میں ہیں کہ کھائیں گے تو شوگر بڑھ جائے گا۔ اس ڈر سے نہیں کھا رہے ہیں۔ انہیں ڈرے ہوئے لوگوں میں سے ایک صاحب یہ بھی ہیں جنہوں نے اپنے حالات بتائے۔ 

ایک اور ساتھی جو اس وقت بحیثیت پرنسپل و میڈیکل سپرنٹنڈنٹ اور صدر شعبہ اناٹومی (تشریح البدن) ارم یونانی میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل (ارم گروپ آف انسٹیٹیوشن لکھنؤ) میں مصروفِ کار ہیں۔ انہوں نے کال کرکے پوچھا کہ کس بنیاد پر آپ آم کھانے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ جب کہ ہم نے بی یو ایم ایس پڑھنے میں ایک چیپٹر اس موضوع پر بھی پڑھا ہے جس میں ہے کہ میٹھے پھل نہیں کھا سکتے۔

میں نے کہا کہ مجھے حیرت ہے کہ جنرل ڈاکٹر تو بتاتے ہی ہیں لیکن یونانی والے بھی یہی پڑھا رہے ہیں، مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے۔ کہ کس بنیاد پر یونانی والے ایسا بتاتے ہیں؟ لیکن آپ اتنے تجربہ کار ڈاکٹر اور پروفیسر ہو کر بھی مجھ سے پوچھ رہے ہیں تو میں آپ کو ایک لائیو ایکسپریمنٹ کا طریقہ بتا دیتا ہوں۔ آپ کر کے دیکھیے۔ ان شاء اللہ آپ کا شک دور ہو جائے گا۔ اور اللہ کی جس ایک نعمت سے کئی برس سے محروم تھے، اب محرومیت سے بچ جائیں اور لطف لے کر کھائیں گے۔ 

اب کچھ موضوع کے بارے میں۔ 

افسوس ہے کہ ہمارے مکتب اور ہم پیشہ لوگ اپنا تعارف اس طرح کراتے ہیں تو مجھے مجبور ہو کر یہ ایسا عنوان رکھنا پڑا۔ اکثر پڑھے لکھے لوگوں کے ساتھ ایک سوچ یہ ہے کہ وہ طے کر چکے ہوتے ہیں کہ اب میں عالمِ دین بن کر مدرسہ سے نکلا ہوں۔ نائب رسول ہوں، تو دنیا اب میرے پیچھے چلے گی۔ یہ بہت بڑی غلطی اور خوش فہمی والی سوچ ہے۔ ہزاروں میں سے ایک مولوی ایسا بن پاتا ہے، جس کے پیچھے دنیا چلتی ہے۔ اور ایسا بننے کے لیے کسی دینی ادارہ میں آٹھ دس برس پڑھائی کرنا کافی نہیں ہوتا۔ بلکہ اُسی دوران ادارہ کی لائبریری میں بھری کتابوں کی ورق گردانی بھی کرنی پڑتی ہے۔ درسی کتابوں کے علاوہ کم و بیش سو صفحات روزانہ کے مطالعہ میں شامل کرنا پڑتا ہے۔ بیرونی مطالعہ، زندگی کے دیگر میدان اورحالات کا مطالعہ کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ رٹی رٹائی تقریر سے جمعہ پڑھا دینے اور جلسہ میں واہ واہی لوٹ لینے سے آپ اتنے بڑے عالم دین نہیں ہو سکتے، جس کے پیچھے دنیا چلے۔ آپ کو بہت کچھ کرنا اور سیکھنا پڑے گا۔ مدرسہ کے لوگوں نے علم دین کا معیار اتنا گرا دیا ہے کہ مجھے خود اپنے آپ کو مولوی کہنے پر شرم آتی ہے۔ کیوں کہ عام انداز میں مولویوں نے دین کے طور طریقے اپنے پیٹ بھرنے کی خاطر بدل دیے ہیں، اور جب ہم اپنے آپ کو مولوی کہیں گے تو زیادہ امکان ہے کہ عام انسان مجھے بھی اسی میں شمار کر لے۔ ہمیں یہ طے کرنا پڑے گا کہ مولویوں کی کس قسم میں سے ہیں۔ مظلوم مولوی، مقبول مولوی، یا مطلوب مولوی۔؟

مظلوم مولوی کا تعارف شروع میں گزر چکا۔ مقبول مولوی کا بھی تعارف کرا دیا۔ اب تیسرا ہے کہ دنیا کے لوگوں کے لیے کون سا مولوی مطلوب ہے؟ رہنمائی کرنے والا؟ دین سکھانے والا؟ اللہ اور رسول کا فرمان بتانے والا؟ دنیا اور آخرت دونوں سنوارنے والا؟ یا جذباتی تقریر کرکے اپنا اُلّو سیدھا کرنے والا؟ نائب رسول کی ذمہ داری نبھانے والا؟ یا مسلک کی تعلیم کو فروغ دینے والا؟  مسلک کی حفاظت کرنے والا یا دین کی حفاظت کرنے والا؟  اپنے مزاج کے مخالف مولویوں کو مختلف تعبیر دینے والا؟ یا حق گوئی کرنے والا؟

پہلا قسم کا مولوی نسل در نسل ایسے ہی منفی اور کمزور ذہنیت کی پیداوار ہے، جسے اپنے پیٹ بھرنے تک کا انتظام کہیں نہ کہیں سے کرنا ہے اور پھر وہی وہی اگلی نسل کو منتقل کر کے گزر جاتا ہے۔ اور یہ نسل وافر مقدار میں پائی جاتی ہے۔

دوسرے قسم کے وہ مولوی ہیں جو تعلیم پر خوب توجہ دیتے ہیں، مختلف اداروں میں کئی قسم کے کورسز کرتے ہیں، وغیرہ۔  وہ اس لئے کہ انہیں اچھی ملازمت حاصل کرنی ہے۔ اور وہ حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ آمدنی کا مستقل ذریعہ مل جانے کے بعد بھی وہ تعلیم یا سیکھنے کا عمل جاری رکھتے ہیں، لہٰذا ایسے لوگ دنیا والوں کے لیے بہتر ثابت ہوتے ہیں اور اپنے وہ اپنے اہل عیال کے لئے بھی بہتر ثابت ہوتے ہیں۔ کیوں کہ اُن کی مالی ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔ وہ ایک بہتر لائف اسٹائل کا لطف لیتے ہیں۔ اور معاشرے میں ایک کامیاب شخص یا خاندان کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ یہ ہیں مقبول مولوی۔

اب رہی بات مطلوب مولوی کی۔ اس میں اکثر وہ ہوتے ہیں جو تعلیم یافتہ کے ساتھ اضافی علم بھی سیکھتے ہیں اور اُن کا ایک نشانہ ہوتا ہے کہ وہ دنیا میں کوئی ایسا کام کر جائیں جو رہتی دنیا تک یا کم از کم کچھ نسلوں تک اُن کے ذریعہ کئے گئے کام لوگوں کے لئے فائدہ کا سبب بنے۔ یا کم از کم موجودہ نسل کی حالت تو بہتر بنا ہی دیتے ہیں۔ اس میں بھی بہت سارے لوگوں کے نام شمار کرائے جا سکتے ہیں، لیکن سب اہم ایک نام میرے ذہن میں نمبر ایک پر ہے وہ ہے پچیس برس کا ’’ولی رحمانی‘‘ جسے موجودہ نسل کے ساتھ ساتھ بعد کی نسل بھی یاد رکھے گی۔ یہ اِس دور کا ’’مولانا ابوالکلام آزاد‘‘ ہے۔ جس نے سماج کے بہت ہی اہم موضوع کو نشانہ بنا کر کام شروع کیا اور کامیاب بھی ہے۔ اتنی کم عمری میں اتنا بڑا کام، بہت کم لوگوں کے حصّہ میں آتا ہے۔

اب رہی بات میرے بارے میں۔ کیوں کہ آپ پھر سوال کریں گے کہ دوسروں کے بارے میں بڑی لن ترانی کر رہے ہو۔ خود بھی کچھ کیا ہے؟ یا یوں ہی دوسری کی ناپ تول کر رہے ہو؟ جاننے والے جانتے ہیں، لیکن مختصر یہ کہ 

الحمد للہ میں فاضل حدیث و فقہ کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک خوشنویس کی حیثیت سے اپنی معاشی زندگی شروع کی۔ پھر صحافیانہ صفت بھی آگئی، ’’نئی شناخت‘‘ کے نام سے ایک ماہنامہ سوا سات برس تک ایڈٹ کیا اور شائع کیا۔ دائیں سے بائیں جانب لکھی جانے والی زبانوں کے لیے فونٹ بناتا ہوں یعنی فونٹو گرافر ہوں، حالات نے علم الابدان سیکھنے پر مجبور کیا، لہٰذا سیکھا اور اب معالج بھی ہوں اور یہ علوم مجھے سوئے سوئے خواب میں نہیں آئے۔ مطالعہ کے ساتھ ساتھ مشاقی بھی کی ہے۔ مولانا، مفتی، ڈاکٹر، انجینئر، صحافی کا سابقہ لگانے سے بہتر ہے کہ لوگ مجھے وہی پرانے قلمی نام سے جانیں اور میرے کام سے پہچانیں۔ 

والسلام

نوٹ جس کسی کوبھی پھیپھڑا، کلیجی، دل، گردہ، پت، پنکریاز کی کوئی بھی پریشانی ہو جو ٹھیک نہیں ہو رہی ہو تو مجھ سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ گھر بیٹھے آپ کی بیماری ٹھیک ہوئی جائے گی۔ شرط یہ کہ میرے بتائے ہوئے نسخے کو عمل میں لائیں گے۔  مزید معلومات کے لیے میرے نمبر پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

9811742537

 ☆ ☆ ☆

13th July 2024


Tuesday, June 25, 2024

زندہ بزرگ کس کام کے؟

 زندہ بزرگ کس کام کے؟

ایک بات میں نے اکثر نوٹ کیا ہے کہ کسی تنظیم، ادارہ، جماعت، میں اگر کوئی اہلِ علم، قابل اور قابل اقتداء یا قابلِ استفادہ شخصیت سے ملاقات چاہیے تو سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں کی طرح اُن کے پرسنل اسسٹنٹ ملاقات نہیں کرنے دیتے، یہاں تک کہ بعض دفعہ عرضی گزار کی عرضی تک نہیں پہنچاتے۔

بعد مرنے کے میرے قبر پہ بونا آلو

لوگ سمجھیں کہ کوئی چاٹ کا شوقین مرا

یہ ایک مزاحیہ شعر ہے جس میں شاعر نے اپنا شوق بتاتے ہوئے اپنی پہچان بتائی ہے۔ عموماً اداروں میں ایسا ہو رہا ہے، اس لیے یہ شعر یاد آ گیا۔

کیوں کہ مرنے کے بعد اُن کی پہچان ایسے کرائی جاتی ہے کہ بس۔ اُن کے مرنے سے معاشرہ میںایسا خلا پیدا ہو چکا ہے کہ اب کبھی بھرا نہیں جا سکتا۔ 

ایک جماعت کے پندرہ روزہ آرگن میں چھ صفحات، تقریباً پانچ ہزار الفاظ پر مشتمل اُس شخص کی پہچان کرائی گئی جو کبھی اسی جریدہ کے مدیر ہوا کرتے تھے۔ بہت ہی عمدہ اداریہ لکھا کرتے تھے۔ جب تک وہ لکھتے رہے، میں پڑھتا رہا۔ میرا چوں کہ صحافت سیکھنے کا ابتدائی دور تھا، مجھے پڑھنے سیکھنے اور ملاقات کا شوق زوروں پر تھا۔ لیکن میں اُن سے ملاقات کرنے سے محروم رہا۔ ملاقات نہ ہونے کی وجہ وہی جو میں نے پہلے پیراگراف میں بیان کر دیا۔

آج یکم جون تا ۱۵جون ۲۰۲۴ء کے شمارہ میں اُن کی شخصیت پر اداریہ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ جو کہ کچھ اس طرح کی سرخی سے شروع ہوا۔

آہ  

مدیر جریدہ …

ایسا کہاں سے لائیں کے تجھ سا کہیں جسے

دو صفحات پڑھنے پر بھی اندازہ نہیں ہوا کہ آخر یہ کس شخص کے بارے میں اتنی صفات بیان کی جا رہی ہیں۔ جب سمجھ میں آیا تو مجھے افسوس ہوا کہ اتنی بڑی علمی شخصیت سے میری ملاقات نہ ہو سکی۔ اب شاید صحافت کا تعارف بھی اسی طرح لکھنے اور زمین و آسمان کی قلابیں ملانے کو کہتے ہیں۔ 

آج سے چونتیس برس پہلے کا ایک واقعہ ہے کہ جب میں ایک ہفت روزہ اخبار میں خوشنویسی کیا کرتا تھا۔ کچھ صحافی اس طرح کی رپورٹس تیار کرتے تھے کہ الامان و الحفیظ۔ بالکل آج کے ٹی وی چینل میں پیش کرنے والے کے انداز میں۔ جیسے ایک چوہا مرنے کی رپورٹ کی آپ نے ٹی وی پر دیکھا اور سنا ہوگا، ایسے تمہید باندھی گئی تھی کہ پانچ منٹ بعد پتا چلا کہ چوہا مرا ہے۔ دیکھنے اور سننے والا یہ سمجھتا ہے کہ پانچ منٹ سے مجھے بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔ ویسے ہی اُس زمانے میں لکھنے والے ایسے لکھتے کہ ایک صفحہ یا تقریباً ایک ہزار الفاظ پڑھنے کے بعد پتا چلتا کہ اس حادثہ میں دو افراد زخمی ہوئے۔ اس کو کہتے ہیں ، صحافت، خبر بنانا یا تل کو تاڑ بنانا۔ 

ایسے ہی تعارف ادارہ اور شخصیات کا کرایا جاتا ہے۔ جھانک کر دیکھا جائے تو کھوکھلا۔ کسی کام کا نہ ادارہ ہے اور نہ شخصیت۔ جھوٹ کا پلندہ بتا کر ادارہ قائم کر لیا جاتا ہے۔ چند ایکسپرٹ طالب علم کو دوسرے ادارہ سے کرایہ پر یا بہلا پھسلا کر لایا جاتا اور سال کے پورا ہونے پر بڑا جلسہ کرکے دستاربندی کر دی جاتی ہے۔ نمائش یہ کی جاتی ہے کہ ہمارے ادارہ  کی کارکردگی ہے۔ اور چندہ وصول کر لیا جاتا ہے۔ بلڈنگ پر بلڈنگ تیار کی جاتی ہے سال بھر میں چند بچے کسی طرح حافظ یا قاری بنا دیا بس۔ محلے کے بچے ویسے ہی اَن پڑھ اور جاہل رہ جاتے ہیں۔ کیوں کہ مدرسہ میں بچے وہاں سے لائے جاتے ہیں جس علاقے کے مولوی، حافظ یا قاری صاحب نے ادارہ قائم کیا ہے۔ 

اتنے تعلیمی ادارے اور مکاتب و مدارس سے فارغ پڑھے لکھے حضرات اپنے علاقے میں ادارہ کیوں نہیں قائم کرتے؟ کیا اُن کے علاقے میں دین پھیلانے اور دین پر قائم رہنے کی ضرورت نہیں ہے؟ اداروں یا تنظیموں کے پاس قدرتی آفات کے نام پر چندہ کرنے اور کچھ رفاہی کام کی نمائش کرنے کے علاوہ کیا کام ہے؟  کوئی بھی ادارہ یعنی این جی او کسی کو خود کفیل یا اہلِ علم عمل بنانے کا کتنا بڑا ریکارڈ ہے؟ صدقہ و زکوٰۃ کے مثبت استعمال کا کتنا بڑا ریکارڈ ہے؟ آٹے میں نمک کی طرح یا آٹے کی طرح۔ استقبالیہ دینا، پریس ریلیز جاری کرنا تو عام عمل ہو چکا ہے۔ اب صحافت کا معراج بھی اِسی کو کہا جانے لگا ہے۔ پریس ریلیز چھپوانا اور اُس کی نمائش کرنا۔

اب گاؤں دیہات سے بھی دین کا چلن اٹھتا جا رہا ہے۔ کیوں کہ جہالت اور اناپرستی ابھی تک ہمارے یا آپ کے ذہنوں سے نہیں اُترا ہے۔ ایسا ہی ہم نے اپنے گاؤں میں دیکھا۔اڑتیس برس پہلے اور آج کے گاؤں کی حالت کا تجزیہ ایک مضمون ’’اماموں کی قدر کریں‘‘ میں پیش کیا تھا۔ اس طرح کے حالات بدلنے کے پیچھے ایک اہم سبب مادیت پرستی ہے۔ گزشتہ تیس برسوں میں پیسوں کی بارش ہوئی ہے۔ لوگ آرام طلب ہو گئے ہیں۔ کھانا کھا کر سوتے ہیں اور جب بھوک لگتی ہے تو جاگ جاتے ہیں۔ مدارس و مساجد اب نمائش اور تبرک کے لیے تعمیر کی جا رہی ہیں۔ نہ لوگوں کی سنجیدگی دکھائی دے رہی ہے اور نہ ہی معاملہ فہمی اور آپسی تعلقات میں بہتری۔ گاؤں کے مجبور خاندان کے بچوں کو دینی تعلیم سے زبردستی آراستہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آٹھ دس برس مدرسہ میں لگانے کے بعد اب اکثر بچے دبّو، شکم پرور، پست ذہنیت، خودغرض اور چند لڑاکا قسم کے آدمی تیار ہو رہے ہیں۔ پچاس سو گز زمین پر مدرسہ چلا رہے ہیں۔ چندہ کی رقم سے اپنا اور اہلِ خاندان کا پیٹ پال رہے ہیں۔ کئی ناظم اور مہتمم نے چندہ کرنے والے رکھے ہوئے ہیں۔ جو اپنے روٹین کے مطابق اپنے منتخبہ علاقوں میں دورہ کرکے چندہ اکٹھا کرتے رہتے ہیں۔ ملک کے کس کس کونے میں ایسا ہو رہا ہے اس کو پیش کرنا ایک کارِ مشکل ہے، لیکن ہم نے جن علاقوں کا دورہ کیا تو وہاں کی حالت کی بنیاد پر میں یہ کہہ رہا ہے۔ دہلی کے کچھ علاقے اور غازی آباد کے کچھ علاقوں میں حافظ اور قاری بنانے کے نام پر تو ہر دو تین سو میٹر پر یا ہر گلی میں ایک مدرسہ مل جائے گا۔ اس سے سماج میں کتنی بھلائی ہو رہی ہے، یہ تو دکھائی نہیں دے رہا، لیکن چند لوگوں کا پیٹ کا معاملہ حل ہو جا رہا ہے۔ اور اس کام کے لئے ان کے پاس سورہ توبہ کی آیت دلیل ہے، جو کہ مستحکم ہے۔ بلکہ علماء کرام اس آیت پر زور دے کر کہتے ہیں کہ یہ ہمارا حق ہے، ہم کوئی غلط نہیں کر رہے ہیں۔ میں بھی یہی مانتا ہوں کہ آپ چندہ یا صدقہ جمع کرنے کے اہل ہیں، لیکن اس کے خاطر خواہ نتائج کیوں برآمد نہیں ہو رہے ہیں؟ یہ غور و خوض کا پہلو یا لمحۂ فکریہ ہے کہ نہیں؟

ہمارے اپنے ہی لوگ دین کا مذاق بنائے ہوئے ہیں۔ تو دیگر کو کیسے دین کی طرف رغبت پیدا ہوگی؟ کتنے ملّی اور مسلکی ادارے اخلاقی طور پر دین کو پیش کرتے ہیں، یا کرنے والے ہیں؟ کیوں کہ دین کا فروغ اور معاشی بہتری اُسی وقت آ سکتی ہے جب صدقہ و زکوٰۃ کا صحیح مصرف ہو۔ اور یہ کام برائے نام ہو رہا ہے۔ 

جب ہمارے اکابرین کا تعارف بعد الموت لق و دق انداز میں کرایا جا رہا ہے تو غور طلب پہلو یہ ہے کہ ہم بھی ایک طرح سے مردہ پرست قوم ہیں؟

 ☆ ☆ ☆

فیروز ہاشمی، ری فورمسٹ، نئی دہلی

8th June 2024


Monday, June 17, 2024

آٹھ منٹ کا فتنہ

آٹھ منٹ کا فتنہ

جیسا کہ ہر جمعہ میں دو منٹ سے پانچ منٹ اور بعض دفعہ دس منٹ زائد دیر سے جماعت شروع کیا جاتا ہے، اِس بار بھی رمضان کو رحمت و مغفرت کا مہینہ بتاتے ہوئے آخری جمعہ اپنے وقت مقررہ سے آٹھ منٹ کی دیری سے شروع کیا گیا۔ خطباء کرام جو زیادہ تر مسجد کے متولی، منتظم یا مسجد و مدرسہ کے ناظم اعلیٰ ہوتے ہیں، عمومی طور پر جمعہ کی جماعت دیر سے شروع کرتے ہیں۔ کچھ اعلانات، رحمت و برکت کی باتیں آخرت کی چاشنی دیتے ہوئے دیر کرتے ہیں۔ دیر سے شروع کرنے سے چند ایک رسمی فائدہ تو سمجھ میں آیا لیکن شرعی اور سماجی فائدہ آج تک سمجھ نہیں آیا۔

رسمی فائدہ یہ سمجھ میں آیا کہ کچھ اضافی چندہ اکٹھا ہو جاتا ہے۔ اور لوگ بطورِ تبرک امام صاحب کی تکریم کرتے ہیں، جب کہ اصل میں اپنی کم مائیگی اور کم علمی کی وجہ سے اعتراض نہیں کرتے اور مصلحتاً خاموش ہی رہتے ہیں۔ مصلحتاً اس لئے کہہ رہا ہوں کہ حالات تو ہر جگہ خودغرضانہ ہے۔ ہمیں آپس میں لڑتے دیکھیں گے تو وہ ہماری مجبوری کا فائدہ اٹھائیں گے۔ حالاںکہ کسی بھی قوم سے کوئی بھی حالت ڈھکی چھپی نہیں ہے۔

شرعی اور سماجی فائدہ اِس لئے سمجھ میں نہیں آیا کہ وقت کے سلسلے میں بہت ہی واضح حکم اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرما دیا ہے۔

اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا(۱۰۳)

بیشک نماز مسلمانوں پر مقررہ وقت میں فرض ہے۔

جب وقت کے سلسلے میں اتنا واضح حکم موجود ہے تو پھر خطبہ کو طول دینا اور وقت مقررہ سے جماعت اور نماز میں تاخیر کرنا کس بات کا پتا دیتا ہے؟ 

علماء کرام و خطیب عظام اِس تاخیر سے مسلم قوم کو اور دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ 

کیا یہ بھی مسلمانوں کو تکلیف دینے کے ضمن میں آئے گا؟ یا صرف ایک مسلم کا اپنے دوسرے مسلم بھائی کے اگواڑے یا پچھواڑے میں کوڑا پھینکنا ہی تکلیف پہنچانے کے ضمن میں آئے گا؟ جیسا کہ اِس حدیث میں مسلم قوم کی تعریف بیان کی گئی ہے؟

’’الْمُسْـــــــلِمُ مَنْ سَـــــــلِمَ الْمُسْــــــلِــمُـــونَ مِنْ لِسَــانِـهِ وَيَــدِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُـــهَـاجِـــرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ‘‘

’’مسلم وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہ ہے جو اُن چیزوں کو چھوڑ دے جن سے اللّٰہ نے منع فرمایا ہے۔‘‘

مسلم و ہ ہے جو اسلام کے احکام و اصول کے مطابق اپنی زندگی گزارے یا مسلم وہ ہے جو اپنی مرضی سے شریعت کو بنا لے؟

احکامِ الٰہی کے دو طریقے بیان کرکے ہم پوچھنا اور جاننا چاہتے ہیں کہ کب سے ہم نے احکامِ الٰہی کو پس پشت ڈال کر اپنی مرضی سےزندگی گزارنے والے بنے ہیں۔؟

کچھ علماء کرام اس طرح کی حرکتوں کے بارے میں اکابرین کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، وہ بھی عام مسلم قوم کی طرح کہتے ہیں کہ اکابرین سے چلا آ رہا ہے۔ اگر اکابرین نے کسی موقع پر کسی خاص وجہ سے کچھ وقت لے لیا تو کیا مطلب ہے، دیر کرنا دلیل بن جائے گی؟ بعض عمل اور فتاویٰ وقتی ہوتے ہیں۔ وقت گزر جانے اور حالات بدل جانے کے بعد وہ فتویٰ نا قابل استعمال ہو جاتا ہے۔ اس کی اہمیت نہیں رہ جاتی۔ جب کہ ہم ہیں کہ ملفوظاتِ فلاں اور عملیاتِ فلاں کا پیغام فاروڈ کرتے ہیں اور عمل کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں۔

صدی بھر پہلے بہت سارے اعمال انگریزوں کی مخالفت میں کئے گئے تھے اور علماءکرام نے فتویٰ جاری کرکے اُن کے ذریعہ تیار کئے گئے بہت سے پروڈکٹ کے بائیکاٹ کا مشورہ دیا تھا، لیکن وہ فتویٰ وقتی تھا۔ افسوس تو یہ رہا ہے کہ ہماری قوم اُس وقتی فتویٰ پر پوری ایک صدی سے عمل پیرا ہے اور عملی میدان میں دوسری قوموں کے مقابلے میں پوری ایک صدی پیچھے رہ گئی۔ جو قوم نمائندگی اور رہنمائی کرنے کے لئے پیدا کی گئی تھی وہ دوسری قوموں کی پچھ لگو یا دست نگر بنی ہوئی ہے۔ یہ ہے ہماری وقت کی بربادی اور غلط سوچ کا نتیجہ۔ وقت کا غلط استعمال نے ہمیں ان حالات میں پہنچا دیا۔

آئے دن ہر تھوڑی سی بات پر لوگوں کو جذباتی بناکر بائیکاٹ کا فتویٰ جاری کر دیا جاتا ہے۔ معمولی معمولی باتوں یا واقعات پر بھیڑ جمع کرنا یا بائیکاٹ کا پیغام فاروڈ کرنا عام بات ہو چکی ہیں جب کہ اگر ہم کسی دوسری قوم کے بنائے پروڈکٹ کا بائیکاٹ کرنے چلتے ہیں تو ہمیں اپنے گھر سے آدھا سے زیادہ سامان پھینکنا پڑے گا۔ دوسری سب سے اہم بات یہ کہ جن سامانوں کو ہم نے اپنے گھر کی زینت بنایا اُن میں سے آدھے سے زیادہ سامانوں کی ہمیں ضرورت نہیں ہے۔ ہماری اپنی تباہی اور پریشانی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے غیرضروری سامانوں کو بھی اپنے گھر کا حصہ بنا رکھا ہے۔ یہ ہے ہماری قوم کی مالیاتی کمزوری کا سبب۔

دورِ موجودہ میں کلی طور سے بازار کا مالیاتی نظام آپ کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ آپ ہر طرح سے دوسری قوم کے محتاج ہیں، حالاں کہ وہ قوم تعداد میں قلیل ہے اور مینجمنٹ میں آگے ہے۔ پروڈکٹ فراہم کرنے اور سروس پرووائڈ کرنے میں چاق و چوبند ہے۔ اور ہم ہیں کہ مسجد کے دروازے پر چپل جوتے رکھنے کا مینجمنٹ نہیں کر پائے؟ چہ جائیکہ کہ مالیاتی نظام میں ہماری شراکت ہو۔ اِس سال رمضان میں زکوٰۃ و صدقات کا تخمینہ بیالیس ہزار کروڑ روپے کا رہا۔ اور ہماری کل آبادی اندازاً تیس کروڑ نفوس پر مشتمل مانی جاتی ہے۔ اگرہم بیس فیصد آبادی کے بارے میں کہیں کہ زکوٰۃ و صدقات کے مستحق ہیں اور اُن پر یہ رقم تقسیم کر دی جائے تو بتائیں کہ ایک نفس پر کتنی رقم سالانہ مل رہی ہے؟ اور ایک خوددار انسان جو چار پانچ نفوس کا خاندان کی کفالت کرتا ہے اُس سے کتنا کم ہے؟  اگر اندازاً سات کروڑ نفوس کو زکوٰۃ کا مستحق مان لیں اور اس میں یہ رقم تقسیم کیا جائے تو ایک نفس پر ساٹھ ہزار روپے آتے ہیں۔ کیا یہ رقم اُنہیں ایک سال کی کفالت کے لیے کافی نہیں ہے؟  ہے۔  بلکہ وہ اس رقم کا درست استعمال کریں تو اگلے برس وہ خود کفیل بن جائیں گے۔ اگر اُن میں پچیس فیصد بھی خوددار شخص ہوں جن کا یہ کہنا ہوتا ہے کہ اگر ہمیں مالی مدد مل جائے تو ہم اپنا کاروبار کرکے ضروریاتِ زندگی مہیا کر لیں گے۔ ہر برس اگر اُن زکوٰۃ لینے والوں میں سے پچیس فیصد بھی کم ہو جائیں یعنی ملی ہوئی رقم سے اپنا کاروبار کرکے کمانے لگے تو چند برسوں میں ہی ہمارا پورا معاشرہ خود کفیل بن جائے۔ زیادہ سے زیادہ دس برس درکار ہوں گے۔ چند فیصد اگر ذہنی اور جسمانی طور پر معذور رہ بھی جائیں تو اُن کی کفالت کرنا معاشرہ کے لئے اتنا بڑا بوجھ بھی نہیں ہوگا۔

لیکن گزشتہ ایک صدی کا تجزیہ کیا جائے تو نتیجہ یہ سامنے آتا ہے کہ مالیاتی میدان میں ہم بالکل پھسڈی ہیں۔ گزشہ ایک صدی سے انگریزوں کی مخالفت میں برسوں انگریزی زبان سے عاری رہے۔ چند فیصد لوگ جنہوں نے انگریزی سیکھی اور قوم کو مین اسٹریم میں ڈھالا، ہمیشہ وہ عتاب کے شکار رہے اور اب تک اُن کی محنتوں پر پانی پھیرنے کے لیے ایک طبقہ ہماری قوم میں موجود ہے اور کوشش جاری رکھے ہوئے ہے۔ کبھی یہودی اور عیسائی یا دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی مخالفت میں اپنا وقت، سرمایہ اور دماغ خرچ کرتے رہے۔ کبھی دیگر قوم کے لیے۔ جب کہ ضروریاتِ زندگی کو پوری کرنے اور بہتر بنانے کے لیے اُن ہی کی بنائی ہوئی چیزوں کو استعمال کرتے رہے ہیں۔ اور اب بھی کر رہے ہیں۔ ننانوے فیصد لوگ اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ صحت اور تعلیم کی سہولیات فراہم کرنے کے میدان میں آج بھی عیسائی قوم سب سے آگے ہے۔ ناگہانی آفات و بلیات کے موقع پر انسانیت کی رفاہ کے کام میں سب سے آگے سردار جی آتے ہیں۔ پروڈکٹ بنانے اور بازار میں لانے کے میدان میں آج بھی یہودی سب سے آگے ہیں۔ اور ہم یا ہماری قوم کے بیشتر افراد صدقہ و زکوٰۃ کو بانٹنے اور نمٹانے میں سب سے آگے ہیں۔ خطاب جمعہ اور جلسوں میں وقت لگا کر لالی پاپ بانٹنے میں علماء کرام سب سے آگے ہیں۔ 

بھائی! اللہ کے رسول ﷺ نے عملی طور پر بھی کرنے کو بتایا ہے، صرف دعاء اور تبرک سے دُنیا اور آخرت بہتر نہیں بن سکتی۔ ہم تمام ہی علماء کرام اور خطباء عظام سے درخواست کرتے ہیں کہ اللہ کے واسطے قوم کی درست رہنمائی فرمائیں، چند سو گز جگہ اور زمین میں مہمانانِ رسول کے نام پر لوگوں کو بے وقوف بنانا چھوڑیں۔ اُن کی سادگی کا فائدہ اٹھانا چھوڑیں۔ صرف ہمیں ہی اللہ کو جواب نہیں دینا ہے، آپ کو بھی دینا ہے۔ اپنے بارے میں بھی سوچئے کہ کس طرح قوم کو جذباتی بنا کر مالی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ دنیا کو حافظ اور مولوی بنانے کی تلقین کرتے اور اپنے بچوں کو عصری اداروں میں تعلیم دلواکر مین اسٹریم میں جوڑتے ہیں۔ آپ ہی درس دیتے ہیں کہ جو اچھی چیزیں اپنے لیے پسند کرتے ہو، وہی اپنے بھائی کے لئے بھی پسند کرو۔ تو یہاں پر معیار بدل کیسے جاتا ہے؟

ہمیں معلوم ہے کہ اِس مضمون کو پڑھنے کے بعد ہمارے ساتھیوں کی رگِ حمیت پھڑک اٹھے گی اور وہ مجھے فون کرکے سورہ توبہ کی آیت کا حوالہ دے کر خاموش کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔ 

إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ 

[التوبة ۶۰].

ممکن ہے کوئی اور بھی دھمکی دیں گے۔ اور ہم سے یہ سوال کریں گے کہ ابھی تک آپ نے اُمّت مسلمہ کے لیے کیا کیا ہے؟

تو ہم بار بار یہ تو نہیں بتائیں گے کہ ہم نے کس کے لیے کیا کیا ہے؟ کیوں کہ ہم نہ تو کوئی رفاہی ادارہ چلاتے ہیں نہ ہی مدرسہ یا مسجد کے متولی ہیں کہ بتا کر یا جتا کر آگے چندہ کا راہ ہموار کرنا ہے۔ ہم تو صرف کرتے ہیں، جس نے فائدہ اٹھایا وہ کامیاب ہیں، خود کفیل ہیں، وہ ہمارے لیے دعائیں کرتے ہیں، نئے بندوں کو وہ بھی خود کفیل بناتے ہیں اور یہی طریقہ سنّت نبوی سے ثابت ہے۔ اور ہم اِسی کام میں لگے ہوئے ہیں۔

والسلام

فیروزہاشمی

۵؍جون ۲۰۲۴ء


 

Thursday, June 6, 2024

ارتداد، اسباب اور تدارک

’’اسلام ایک ایسا نظامِ حیات ہے، جس نے مختلف شعبہ ہائے زندگی اور تمام مراحل کے لیے دستورالعمل تیار کیا ہے۔ بہتر زندگی گزارنے اور فطرت کے مطابق عمر بسر کرنے کے لیے واضح ہدایات دیں اور سیدھا راستہ دکھایا ہے۔ دینِ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے اور اس میں ہر گوشہ حیات کے لیے روشن طریق، واضح اور معتدل احکام موجود ہیں۔ مذہبِ اسلام کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس میں تمام چیزوں کی اور ہر پریشانی کے لیے احکام اور راہِ نجات موجود ہے۔‘‘

عمومی طورپر اسلام کا یہ تعارف ہر کسی کو پتا ہے۔ بہت کم لوگ اِس سے ناواقف ہیں۔ 

ارتداد کی پہلی وجہ دینی تعلیم سے دوری اور اسلامی تربیت سے عاری زندگی۔ ارتداد کی دوسری وجہ مخلوط تعلیم نے جس قدر معاشرے میں تباہی و بربادی پھیلائی ہے۔ ارتداد کی تیسری وجہ فلمیں، ڈرامے اور سیریلز نے سماج میں جس قدر گندگی پھیلائی ہے، وہ کسی صاحبِ بصیرت سے ڈھکی، چھپی نہیں ہے۔ 

ارتداد کی یہ تین بنیادی وجہیں قرار دی جا رہی ہیں اور لکھ کر اور بیان دے کر اپنا پلّا جھاڑ لیا جا رہا ہے۔ یا کسی ادارہ یا تنظیم کے لیٹر ہیڈ پر پریس ریلیز جاری کر کے سمجھ لیا جاتا ہے کہ ہم نے اپنی ذمہ داری نبھا دی۔ جب کہ ارتدار کی اصل وجہ اخلاقی طور پر عملی فقدان ہے۔ اسلام کا اخلاقی نظام وہی قابلِ عمل ہے جو اللہ کے رسول مُحمَّد سے ثابت ہے۔

ہمارے یہاں دینی تعلیمی اداروں کی بھرمار ہے، اور دین داری کے دعویدار کی بھی کمی نہیں، پھر دین سے دوری وجہ کیوں کر قرار دی جاسکتی ہے؟ کئی علاقے تو ایسے جسے مدرسوں کا شہر کہتے ہیں، کئی علاقے ایسے ہیں جسے مولویوں اور حافظوں کا شہر کہتے ہیں۔ کچھ لوگ تو تعارف کرانے میں اتنا آگے بڑھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بھائی وہ جگہ تو پورا … …ہے گویا ایک طرح سے یہ سب باتیں کہنے اور جتانے تک ہی محدود ہے۔ یا کرتا پائجامہ ٹوپی تک محدود ہے۔ یا مسجد و مدرسہ تک محدود ہے۔ عملی اور عقلی طور پر کسی بھی طرح سے ہمارے اندر دینی اصول نہیں ہے یا برائے نام ہے؟ ہماری کوئی ایسی پہچان نہیں ہے جو دیگر ہندوستانیوں سے امتیاز ظاہر کرتی ہو؟ جیسے دیگر لوگوں کی عبادتیں اور معاشرتی معاملات ہیں، ویسے ہی ہمارے بھی ہیں۔ ہماری کون سی امتیازی شناخت ہے جسے دیکھ کر یا پرکھ ہے دوسری قومیں ہم سے معاملہ کریں اور بھروسہ رکھیں؟ کیا ہم معاشرہ میں متأثر کن شخصیت کے مالک ہیں؟

مخلوط تعلیمی ادارے اور رہن سہن کئی صدی سے رائج ہے، جسے ایک وقت میں آپ ہی گنگا جمنی تہذیب کے علمبردار کہتے رہے ہیں اور تھوڑے ہی وقت کے فاصلہ پر علیحدہ معاشرہ اور تعلیم گاہ کی تشکیل کا مشورہ دیتے ہیں۔ اور جو آپ تیسری وجہ قرار دیتے ہیں، وہ نہایت ہی لچر اور گھٹیا سوچ کی پیداوار ہے۔ یعنی فلمیں اور سیریلز وغیرہ۔ اخلاقی بگاڑ کی سب سے اہم وجہ ٹی وی، فلمیں اور اب موبائل کو قرار دیا جا رہا ہے۔ جب کہ اخلاقی بگاڑ کا سب سے بڑا سبب آپ کا انتخاب ہے۔ آپ نے اپنی ضروریات، تفریحات، تعلیمات وغیرہ کے لئے کس کا انتخاب کیا ہے؟ آخر مادّی سہولیات کو اخلاقی بگاڑ کا سبب کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ اور کیوں قرار دیا جا رہا ہے؟ اِس طرح کی اخلاقی بگاڑ کے سامان کیا پہلے کی تین صدیوں میں نہیں ہوا کرتے تھے؟ کیا اُس وقت اخلاقی بگاڑ نہیں ہوا کرتے تھے۔ لیکن آج جس رفتار اور جس نہج پر تعلیم کے دوران اور تعلیم کے بعد بھی، تعلیم گاہیں مختلف ہونے کے باوجود بھی ارتداد کے واقعات پیش آئے ہیں اور آ رہے ہیں۔ وہ ایسی وجہ اور لمحۂ فکریہ ہے کہ اُس کو اکثر تعلیم یافتہ اور باشعور لوگوں نے گفت و شنید کرنا غیر مناسب سمجھا ہے۔

۱۔ارتداد کی پہلی اہم وجہ غیر سنت نکاح کا چلن 

یعنی معاشرے میں غیرمتوازن نکاح کی تقریبات کا انعقاد۔ بچّے وہی کرتے ہیں جو ہمیں کرتے دیکھتے ہیں، نہ کہ وہ کرتے ہیں جو ہم کہتے ہیں۔ اللہ کے رسولﷺ نے کرکے دِکھایا۔ اور ہم نے اُن کے کئے کام کو تاویل کرکےاپنی مرضی کے مطابق کیا۔ جیسے

یہ ہمارے یہاں نہیں ہوتا۔ 

یہ سب ہم لوگ نہیں مانتے۔ 

یہ طریقہ اُس طرف کا ہے۔ 

وہ زمانہ اور تھا۔ 

ایسا کہاں کوئی کرتا ہے۔ 

باپ دادا کے زمانے سے چلتا آ رہا ہے۔ 

ہمارے باپ دادا نے ایسا کبھی نہیں کیا۔

وغیرہ۔

ہمارے ایک دوست کا کہنا ہے

’’شادی ایسی ہونی چاہئے کہ دو لوگوں کی زندگی خوشیوں سے بھر جائے لیکن 500 لوگ اپنا پیٹ اپنی خوشیوں کیلئے بھر لیتے ہیں!‘‘

سنت نبوی کے مطابق نکاح مسجد میں ہونی چاہیے اور مختصر و سادہ ولیمہ۔ جن علاقوں میں یہ طریقہ رائج ہوا ہے، اُن علاقوں کے لوگ معاشرے میں خودکفیل اور باعزت ہو چکے ہیں۔

جب کہ دولت کی نمائش یا دوسروں کی برابری کرنے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے۔ دل و دماغ میں ہے ’’کیا کہیں گے لوگ‘‘ اور یہی ہے سب سے بڑا روگ، معاشرتی پستی کا۔

۲۔ ارتداد کی دوسری بنیادی اور اہم وجہ اخلاقی پستی ہے۔ 

جس پر ہم نے آنکھیں بند رکھی ہوئی ہیں۔ اہلِ علم واضح طور پر سمجھائیں کہ 

قُوْٓااَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ 

(پوری آیت سورہ التحریم آیت ۶ میں ملاحظہ فرمائیں)

سے کیا مراد ہے؟ کس کو حکم دیا گیا ہے؟ کس کو ذمہ داری دی گئی ہے؟ کیا بطورِ گارجین یا والد و والدہ ہم اٹھ کر نماز پڑھ لیں، یا زندگی کے اپنے کام سنت کے مطابق کرلیں اور بچوں پر نظر نہ رکھیں تو ہم گارجین کی ذمہ داری نبھا رہے ہیں کیا؟

معاشرہ میں دیکھیں پچاس سے زائدہ عمر کے لوگ اب مسجدوں کا رُخ کرنے لگے ہیں، اور مسلم علاقہ میں گھر منتقل کرنے کا من بنا چکے ہیں یا منتقل کر چکے ہیں۔ اُن کو معلوم ہو چکا ہے کہ کبھی بھی اللہ کے یہاں سے بلاوا آ سکتا ہے۔ جس طرح مقولہ مشہور ہے کہ ’’جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو شہر کی طرف بھاگتا ہے‘‘  ویسے ہی لگتا ہے مسلمان کی موت جب قریب آنے لگتی ہے تو وہ مسلم علاقہ کا رُخ کر لیتا ہے۔ تاکہ کوئی تو ہو جو میّت کو کاندھا دے سکے اور قبرستان میں جگہ مل سکے۔

معاشرے میں مادّی سہولیات کی فروانی ہے۔ اور ہم نے مادّی سہولیات کو غلط طریقے سے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ جوانی میں غفلت اور جسمانی آسائش کی طلب۔ کمزوری میں عبادت کی چاہت۔ اولاد یا بچّوں کے تئیں بے رُخی، ہر شئے کو پیسے سے خریدنے کی عادت و رغبت نے ہمارے بچوں کو ہم سے دور کر دیا ہے۔ فضول کی تقریبات منعقد کرنا اور شرکت کرنا ہمارے بچوں کو دین سے دور کرنے کا اہم سبب ہے۔ مثلاً نکاح، سنّت کو خیرباد کرکے معاشرتی رسم و رواج کے ساتھ انجام دینے نے ہی ہمارے بچوں میں بھی یہ چاہت پیدا کر دی۔ اسی بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ ’’یہ تو ہمارے باپ دادا کے زمانے سے ہوتا آیا ہے‘‘ جب اللہ کے رسول ﷺ نے دین کا پیغام دیا تھا تو قریش مکّہ نے بھی یہی جملہ کہا تھا۔ قریش باپ دادا کے طریقہ کو نہ چھوڑ سکے اور وہ کفر پر رہے، جبکہ ہم طریقۂ رسول کو چھوڑ کر پکّے مسلمان ہیں۔ 

اگر معاشرتی بگاڑ کا اہم سبب ٹیلی ویزن، فلمیں اور سیریلز ہیں تو آپ بتائیں کہ کیا ان لوگوں نے اس کا استعمال آپ پر تھوپا ہے یا آپ نے خود اسے اپنایا ہے؟ بازار میں بیچنا اُن کی ضرورت تھی اور ہے۔ استعمال کرنا آپ کی ضرورت ہے یا نہیں، اس پر غور کرنا آپ کا کام ہے۔ آپ خود غور کریں کہ اِن تینوں اسباب کو اپنے گھر میں لانے کے لئے کیا کیا بہانے گڑھے ہیں؟ اور بچوں کی خوشی کی خاطر کتنے سنت کو پامال کیا ہے؟

تیسری وجہ والدین کو دوست نہ سمجھنا اور اپنے فیصلے خود کرنا۔

کون سے بچّے اپنے والدین کو اپنا دوست نہیں سمجھتے؟ یہ خاص سوال ہر ایک کے ذہن میں ضرور آئے گا۔ کیوں کہ جو والدین اپنا تربیتی کردار نہیں نبھاتے تو اکثر ایسا نتیجہ نکلتا ہے اور بچے اپنا فیصلہ خود کرنے لگتے ہیں۔ جس کا نتیجہ ننانوے فیصد پچھتاوا ہی ہوتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ شوہر ملازمت پر اور بیگم بچپن سے ہی بچے کو ٹیوشن میں بھیج کر آرام فرماتی ہیں۔ بلکہ اکثر بیگمیں ٹیوشن ٹیچر سے کہتی ہیں کہ میڈم اسے ایک گھنٹہ اور پڑھائیے، میں اتنے روپے زیادہ دوں گی۔ جب تک میں نہ آؤں اسے چھٹی نہ دیجیے گا۔

اسی طرح کے معاشرتی بگاڑ میں ایک وجہ اپنے لوگوں کے ذریعہ بھروسہ کا ٹوٹنا بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اپنے رشتہ داروں سے بھی مشورہ کرنے سے گریز کرنے لگے ہیں۔

حل سب سے پہلے سب سے اہم معاشرتی ذمہ داری ’’نکاح‘‘ کو مسجد میں سنت کے مطابق ادا کیا جائے۔ جمعہ یا ظہر بعد نکاح کیا جائے، حاضرین کو شربت پلا کر رخصت کیا جائے، اتنا ہی کافی ہے۔ ولیمہ آپ اپنی حیثیت کے مطابق سادہ کریں۔ لیکن نمائش نہ کریں۔ وقت بھی بچے گا اور سرمایہ بھی، سنت کے مطابق سنت کا فریضہ ادا ہو جائے گا۔

سنت کے مطابق توحید کو اپنے دل و دماغ سے قبول کریں اور عمل میں لائیں۔ ہم ایک مشترکہ سماج میں رہنے والے ہیں۔ دوسری قوموں کا تو ایک بہانہ ہے، خود دیکھیں کہ ذات برادری اور علاقائیت کے نام پر ہم نے کتنے خرافات و خلفشار مچا رکھا ہے۔

مادّی سہولیات کو اپنی ضرورت کے مطابق استعمال کریں، اسے اپنے گھر اور اپنے سر پر لازم قرار نہ دیں۔ 

صحت مند زندگی کے لیے صحت مند سماج کا ہونا بہت ضروری ہے۔

 ☆ ☆ ☆

فیروزہاشمی

4th June 2024

 

آپ ہی سر بلند رہیں گے اگر

سوشل میڈیا کے رواج پانے کے بعد کسی بھی موضوع پر بحث و مباحثہ کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ پہلے یہ سب نہیں ہوتا تھا۔ پہلے بھ...