سوشل میڈیا کے رواج پانے کے بعد کسی بھی موضوع پر بحث و مباحثہ کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ پہلے یہ سب نہیں ہوتا تھا۔ پہلے بھی ہوتا تھا۔ صرف آلات بدل رہے ہیں۔ افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ ہم آلات و ظرف پر فتویٰ لگا دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر برسوں چھاپہ خانہ کی مخالفت کی جاتی رہی۔ پھر تصنیف و تالیف کا سلسلہ چل پڑا، کتابوں کا چلن عام ہوا، مخالفت، الزام تراشی اور اعتراض اور جواب الجواب کا سلسلہ برسوں چلتا رہا۔ پھر کمپیوٹر کا زمانہ آیا ہے۔مہینوں کا کام ہفتوں میں اور ہفتوں کا کام دنوں میں ہونے لگا۔ اور اب تو گھنٹوں کا کام منٹوں میں ہونے لگا ہے۔ لیکن ہم کہاں ہیں؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ روزمرہ استعمال میں ہونے والی سواری کی مثال لیں۔ کیسی کیسی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ برسوں آپ صحرا کے خاک چھانتے رہے۔ پھر راستے بنائے، مختلف قسم کے پکے راستے بھی بنانے لگے۔ پیدل چلتے رہے۔ سواری کے لئے جانوروں کا استعمال کیا، پھر آپ نے مختلف قسم کے دھاتوں کی مدد سے سواریاں بنانی شروع کی۔ آج آپ کس طرح کی سواری استعمال کرتے ہیں، سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ہر دور میں تبدیلیاں آتی رہی ہیں اور آتی رہیں گی۔ ہمیں اُن تبدیلیوں کو سمجھنا پڑے گا، اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنا پڑے گا۔
اتنی ساری تمہید باندھنے کا میرا مطلب صرف یہ بتانا ہے کہ Negativityاور Positivity یعنی مثبت اور منفی ہر دور میں رہا ہے۔ دقتیں ہمارے ساتھ اس لئے آرہی ہیں کہ ہم نے اکثر مثبت کو چھوڑا یا دھیان نہیں دیا اور منفی میں اُلجھے رہے اور اب بھی اُلجھے ہوئے ہیں۔ یہاں ہم صرف یاد دہانی کرانا چاہتے ہیں کہ ہم اپنی زندگی اور آخرت دونوں جہاں کو بہتر کیسے بنا سکتے ہیں؟کسی بھی کام کے لئے ’’کب‘‘ ’’کیا‘‘ ’’کیوں‘‘ کا سوال ضرور آتا ہے۔ یاد کریں !پرائمر ی کی دوسری تیسری جماعت میں اس کی مشاقی کرا دی گئی ہے۔ کہانی کے خاتمہ پر سوال کے حصہ میں اکثر یہ سوال ضرور ہوتا تھا۔ ’’کس نے کہا؟‘‘ ’’کب کہا؟‘‘ ’’کیوں کہا؟‘‘
ان تین باتوں کو اگر ہم اچھی طرح سمجھ لیں اور عمل کریں تو ہماری دنیاوی زندگی اور اُخروی زندگی دونوں کامیاب ہو سکتی ہے۔ اب قرآن مجید کی اس بنیادی آیت کو غور سے پڑھیں اور جتنے بھی مفسرین نے اس کی تفسیر کی ہے، سمجھنے کی پوری کوشش کریں۔
إن الصلاة كانت على المؤمنين كتابا موقوتا
ایمان کے بعد دین کا پہلا رکن صلوٰۃ کے وقت کا تعین اس آیت میں کیا گیا ہے۔صلاۃ کو وقت کے ساتھ اور وقت کو صلاۃ کے ساتھ لازم ملزوم رکھا گیا ہے۔
وقت کی اہمیت کو بتانے اور سمجھانے کے لئے ہزاروں صفحات لکھے جا چکے ہیں۔سینکڑوں تقاریر اب آڈیو اور ویڈیو کی شکل میں دستیاب ہیں۔ اسے اچھی طرح سمجھیں۔ اور قرآن مجید کی روشنی میں عمل کریں۔ کبھی آپ پریشانی کا شکار نہیں ہوں گے۔ اب اس آیت پر غور کریں۔
إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا
اللّٰہ تعالیٰ نے ہمیں راستے بتا دیئے ہیں۔ اب اختیار ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم کیا کرتے ہیں؟ صحیح اور درست طریقے کو اپنا کر شکر گزار بندہ بنتے ہیں یا غلط طریقہ کو اپنا کر انکار کرنے والے۔
برسوں سے ہم دوسری قوموں کی بنائی اور ایجاد کی ہوئی چیزوں کو استعمال کرتے آرہے ہیں۔ ہماری لاعلمی کا عالم یہ ہے کہ ہمارے اسلاف نے کیا کیا ایجادات کئے، وہ بھی ہم نہیں جانتے۔ اس لئے اب ہم دوسروں کے دست نگر بن گئے ہیں۔ ذرا سی کسی نے ہماری حمیت کو جھنجھوڑا ، اور ہم نے بائیکاٹ کا حکم نامہ جاری کیا۔ ۔۔ بغیر سمجھے بغیر دلیل کے۔۔۔ اگر آپ سمجھ رہے ہوتے تو آپ خود اُن ضروری اشیاء کو تیار کر لیتے۔ لیکن ایسا نہیں کیا۔ خود تو تیار نہیں کیا، بلکہ اس کو سمجھنے میں برسوں لگایا۔ تشویش اور شک میں مبتلا رہے۔ منفی رویّہ رکھا۔ بائیکاٹ کا سلسلہ برسوں سے جاری رکھا۔ مثال کے طور پر پرنٹنگ پریس، ٹیلی ویژن، کمپیوٹر، انٹرنیٹ، موبائیل فون وغیرہ۔ یہ ترسیلی آلات ہیں۔ پرنٹنگ پریس کے ذریعہ صدیوں سے کتابیں چھاپی اور تقسیم کی جاتی رہی ہیں۔ کب آیا ۔۔۔۔۔؟ اور کتنی دیر لگائی ہم نے اسے سمجھنے اور استعمال کرنے میں ؟ غور کریں۔ ۔۔ ’’ٹیلی ویژن ‘‘ پر ہم نے خوب مضامین لکھے۔ برائیاں کنٹینٹ کی تھیں اور ہم برسوں ٹیلی ویژن کی برائی کرتے رہے اور اس کے مثبت پہلو کو بھی اپنانے میں برسوں لگا دیے۔ کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور موبائیل فون کے ساتھ بھی ہمارا رویّہ ایسا ہے۔ جب غیروں کی بنائی ہوئی چیزوں سے آپ کو تکلیف ہوتی ہے تو آپ اپنی ضرورت کا سامان خود کیوں نہیں بنا لیتے؟ ۔۔۔کیوں دوسروں کی بنائی ہوئی لاؤڈ اسپیکر کو استعمال کرتے ہیں؟ ۔۔۔لعن طعن کرنے کے لئے۔ ۔۔۔کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، انٹرنیٹ، اسمارٹ فون۔۔ ۔ ۔ اس کے مثبت اور منفی استعمال کو سمجھیں۔۔ ۔ مثبت استعمال آپ کی زندگی سنوار سکتی ہے، ۔۔۔۔ جبکہ اکثر منفی استعمال ہو رہا ہے۔۔۔۔ جس کے نتیجے بھی سامنے آرہے ہیں۔ جس کے لئے آپ فتاویٰ جاری کر دیتے ہیں۔ ۔۔۔اپنا طریقۂ استعمال نہیں بدلتے اور بائیکاٹ کا فتویٰ جاری کر دیتے ہیں۔ جاہل عوام اسے من و عن تسلیم کر لیتی ہے۔ ۔۔۔۔آپ کے غلط فیصلے اور رہنمائی کی وجہ سے قوم کئی برس پیچھے چلی جاتی ہے۔ اور روز بروز پیچھے ہوتی جارہی ہے۔۔۔۔ آخر۔۔۔ آج کیسے دھڑادھڑ یوٹیوبر بن رہے ہیں؟ ۔۔۔گوگل میٹ کے ذریعہ آن لائن کلاسز ہورہی ہیں۔ میٹنگیں ہو رہی ہیں۔ ۔۔۔ کیا یہ مثبت استعمال نہیں ہے؟ ۔۔۔ قوم کو مزید کتنا پیچھے کرنا چاہتے ہیں؟ بار بار یہ کہا جاتا رہا ہے کہ۔۔۔ ’’ہم تعلیم کے میدان میں پیچھے ہیں‘‘۔ ہم تعلیم کے میدان میں پیچھے نہیںہیں۔۔۔ ہم علم اور حکمت کے میدان میں پیچھے ہو رہے ہیں۔ ۔۔ہمارے مدارس اور دیگر تعلیمی اداروں میں تعلیم دی جارہی ہیں لیکن علم و حکمت نہیں۔ ۔۔۔ اللّٰہ تعالیٰ نے ہمیں قلم کے ذریعہ علم سکھایا۔۔۔۔ اور وہ سب کچھ سکھایا جس کا علم ہمیں نہیں تھا۔ ۔۔۔ وہ علم کہاں ہے؟ دکھائیے۔۔۔۔
جب ہم نے فیس بک پر سوال کیا کہ ’’وہ کون سی قوم ہے جو ایک خاص دن صاف ستھرا ہو کرصاف ستھرے کپڑے زیب تن کرکے، خوشبو سے آراستہ ہوکر عبادت گاہ جاتی ہے، لیکن چپل یا جوتے پرانے پہن کر جاتی ہے۔‘‘
جواب بھائی! کیوں اپنی کرکری کرنے پر تلے ہوئے ہو؟
جمعہ کی نماز کے لئے جیسے ہی تکبیر پڑھی جاتی ہے ۔ یا پڑھ دی جاتی ہے ۔ اکثر ایک جملہ سننے کو ملتا ہے ’’بچے پیچھے جائیں‘‘ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بھائی! ’’کتنے پیچھے جائیں۔‘‘۔ ۔ ۔ ۔ یہاں تک کہ وہ مسجد ہی نہیں جاتے۔ ۔۔۔ کتنا پیچھے کریں گے؟۔۔۔۔ بچوں کو۔۔۔۔ غور کرکے دیکھیں۔ ۔۔ اپنے علاقے کا مشاہدہ کریں۔۔۔ ایک چھوٹا سا کام جسے آپ آج تک Manage نہیں کر پائے۔ اور نہ بچوں کو نماز میں مرتب کر پائے اور کہتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو زمین پر معلم بنا کر بھیجا ہے۔۔ ۔ حکومت کرنے اور سربلندی حاصل کرنے کے لئے بھیجا ہے۔
اب تک کی دی گئی مثالوں سے آپ کو لگتا ہے کہ اِس روئے زمین پر آپ نے سربلندی حاصل کر لیا ہے؟ ۔۔۔ یا کر لیں گے؟۔۔۔ اگر سربلندی حاصل کرلیا ہے تو بتائیں وہ کون سا ملک ہے جسے آپ اللّٰہ کے بنائے قانون کے مطابق چلارہے ہیں؟ ۔۔۔ اور آپ ضروریاتِ زندگی کی سبھی اشیاء تیار کرنے اور بہم پہنچانے میں خود کفیل بن چکے ہیں؟۔۔۔ اب نتیجہ والی آیت ملاحظہ فرمائیں۔
فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَهُ ، وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرّاً يَرَهُ
پس جس نے ذرہ برابر بھی نیکی کا عمل کیا ہوگا، وہ اسے دیکھے گا اور جس نے ذرہ برابر بھی برائی کا عمل کیا ہوگا، وہ بھی دیکھے گا
آخرت میں ہر عمل کا بدلہ ملے گا۔ جس کا ثبوت مذکورہ آیت ہے۔
جس طرح بیمار ہونے کی اصل وجہ بے ترتیب خوراک کھانا ہے۔ …اُسی طرح زندگی میں ناکام ہونے کی اصل وجہ بے ترتیب عمل ہے۔ …پہلے دوڑنا سیکھیں، پھر دوڑ لگائیں۔ ۔ ان شاء اللّٰہ کامیاب ہو جائیں گے۔
جو تقریب حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور صحابہ سے ثابت ہے اسے مضبوطی سے پکڑیں۔ جو تقریب حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور صحابہ سے ثابت نہیں ہے وہ ضرور کہیں باہر سے آئی ہے۔ لہٰذا اسے اپنانا حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنے کے ضمن میں آئے گا۔
آپ غور کریں، نظر دوڑائیں نکاح جیسی سنت جس کو کئی مقام پر اللّٰہ کے رسول نے آدھا ایمان کہا ہے، سب سے پہلے اِسی سنت کی مخالفت ہو رہی ہے … فضول خرچی اور بے ترتیبی کی ایسی مثال شاید تاریخِ اسلام کے کسی دور میں نہیں ملتی … آخر کب ہم فضول خرچی سے بچیں گے۔؟ نوے فیصد سے زاید علماء کرام فضولیات کو فروغ دینے میں لگے ہوئے ہیں … پھر ہمارا معاشرہ کیسا ہوگا؟ جو موجودہ ہے؟ یا اس سے بہتر ہو گا؟ … نہیں۔ …قطعی نہیں۔ …اس کی سزا بھی اِسی قوم کو بھگتنی پڑے گی۔ اور بھگت رہی ہے۔
بھائیو! سنت کو اپناؤ۔
سرمایہ کا درست استعمال کرو۔
جلدی کامیاب ہو جاؤگے۔
ایک مثال برہان پور مہاراشٹر کی عامر خان کے ٹی وی پروگرام ’’ستیہ میو جیتے‘‘ کے ذریعہ سامنے آیاہے۔
اس طرح کی مثال ہر علاقے میں اپنانا ضروری ہے۔
آپ دیکھ رہے ہیں کہ ایک قوم اپنا ہدف حاصل کرنے میں بہت حد تک کامیاب ہو رہی ہے۔ اور آپ جن چیزوں پر ناز کر تے آرہے ہیں، اسے غلامی کی نشانی قرار دے کر نیست و نابود کرنے کی مہم جاری رکھے ہوئے ہے۔
آخر کب تک اپنے باپ داداؤں کی بنائی چیزوں پر ناز کریں گے۔
آپ کیا بنا کر چھوڑے جا رہے ہیں جس پر آپ کے پوتے ناز کریں گے۔؟؟؟
۱۱نومبر۲۰۲۰ء